افغانستان، تین سالہ تاخیر کے بعد پارلیمانی انتخابات کا اعلان
1 اپریل 2018افغانستان کی قانون ساز اسمبلی کے ارکان منتخب کرنے کے لیے الیکشن سن 2015 میں ہونا تھے تاہم صدارتی انتخابات کے بعد پیدا ہونے والے اختلافات کے باعث انہیں مسلسل موخر کیا جاتا رہا تھا۔ اب آخرِکار افغان الیکشن کمیشن کے سربراہ نے آج اتوار یکم اپریل کے روز قومی اسمبلی کے انتخابات رواں برس بیس اکتوبر کے روز منعقد کرانے کا اعلان کر دیا ہے۔
امریکا پاکستانی فوج، انٹیلیجنس حکام پر پابندیاں لگائے، کرزئی
افغان پارلیمانی انتخابات ملتوی ہونے کے یقینی امکانات
اعلان کردہ تاریخ پر اگر انتخابات کا انعقاد ہو گیا تو افغان عوام اکتوبر میں ملکی قانون ساز اسمبلی کی 249 نشستوں کے لیے اپنے نمائندے منتخب کریں گے۔ اسمبلی کے ارکان کی مدت پانچ برس ہو گی۔ علاوہ ازیں افغانستان کے قریب چار سو اضلاع میں علاقائی انتخابات بھی اسی روز منعقد ہوں گے۔
اتوار کے روز ملکی پارلیمانی انتخابات کا اعلان کرتے ہوئے افغان الیکشن کمیشن کے سربراہ گلاجان عبدالبدیع صیاد کا کہنا تھا، ’’افغانستان میں انتخابات کا انعقاد کرانا ایک مشکل عمل ہے۔‘‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان انتخابات کے لیے ووٹر رجسٹریشن کا عمل رواں ماہ کے وسط سے شروع ہو جائے گا۔
افغانستان کے آئندہ صدارتی انتخابات اپریل سن 2019 میں منعقد کرائے جانا ہیں۔ تاہم مغربی سفارت کاروں کے مطابق کابل حکومت ملک کے کئی علاقوں میں سکیورٹی صورت حال خراب ہونے کے باعث انتخابات منعقد کرانے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
اقوام متحدہ نے انتخابات کے انقعاد کے اعلان کو سراہا ہے تاہم اس عالمی ادارے نے کابل حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ان انتخابات میں افغانستان کے تمام شہریوں کو یکساں مواقع کی فراہمی یقینی بنائے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کے خصوصی مندوب برائے افغانستان تادامیچی یاماموتو کا کہنا تھا، ’’محض انتخابات منعقد کرائے جانے سے زیادہ انتخابی عمل میں افغانستان کے سبھی عوام کی شرکت یقینی بنانا ضروری ہے۔‘‘
افغانستان کے کئی علاقوں میں حکومتی عمل داری نہ ہونا اور بحران زدہ علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے افغان شہریوں کے پاس شناختی دستاویزات نہ ہونے جیسے مسائل پارلیمانی انتخابات کے انعقاد کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
علاوہ ازیں ملک میں طالبان جنگجوؤں کی کارروائیوں کا دائرکار بھی مسلسل پھیل رہا ہے۔ گزشتہ ماہ افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کو مذاکرات کی پیش کش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر وہ مذاکرات پر راضی ہو جائیں تو انہیں ایک سیاسی جماعت کے طور پر تسلیم کیا جا سکتا ہے۔
ش ح/ ع ا (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)