امریکا پاکستانی فوج، انٹیلیجنس حکام پر پابندیاں لگائے، کرزئی
7 فروری 2018افغان دارالحکومت کابل سے بدھ سات فروری کو موصولہ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق افغانستان کے سابق صدر نے پاکستان اور امریکا پر یہ الزام بھی لگایا کہ یہ دونوں ممالک افغان جنگ کو اپنے اپنے مفادات کو تقویت دینے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
چین اور تاجکستان کی سرحد کے قریب طالبان کے مرکز پر امریکی حملہ
افغان پارلیمانی انتخابات ملتوی ہونے کے یقینی امکانات
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ ایک انٹرویو میں حامد کرزئی نے کہا کہ امریکا کی قیادت میں افغانستان میں طالبان انتظامیہ کے خلاف جو عسکری کارروائی کی گئی تھی، اس کے 16 برس بعد ہندوکش کی یہ ریاست آج بھی ’انتہائی بری حالت‘ میں ہے۔
حامد کرزئی کے بارے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ کابل میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے کچھ ہی عرصے بعد کرزئی افغان صدر کے عہدے پر فائز ہو گئے تھے اور یہ عہدہ 2014ء تک انہی کے پاس رہا تھا۔
افغانستان میں چینی فوجی اڈے کا مبینہ پلان، اثرات کیا ہوں گے؟
افغان صدر کا خطاب، بدلہ لینے کا اعلان
افغان دارالحکومت کابل میں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران طالبان عسکریت پسندوں اور داعش سے تعلق رکھنے والی ان کی ایک مقامی حریف تنظیم کی طرف سے کئی ایسے بہت ہلاکت خیز حملے کیے جا چکے ہیں، جن میں سوا سو سے زائد انسان ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ یہ حملے ظاہر کرتے ہیں کہ افغانستان میں امریکا کی حمایت یافتہ حکومت کابل تک کو محفوظ بنانے میں بھی ناکام ہو چکی ہے۔
اس پس منظر میں حامد کرزئی نے اپنے انٹرویو میں کہا، ’’امریکا ہمیں یہ نہیں بتا سکتا کہ ’اگر میں یہاں نہ رہوں، تو تمہاری حالت اور بھی خراب ہو گی‘۔ ہم تو اب بھی انتہائی بری حالت میں ہیں۔ ہم اپنے ملک میں صورت حال میں بہتری دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم امن اور سلامتی کے خواہش مند ہیں۔‘‘
پاکستان، افغانستان میں حملوں کا اختیار، دباؤ کا نیا طریقہ؟
کابل میں حملوں کے ثبوت پاکستان کو فراہم کر دیے، افغان حکام
ساتھ ہی سابق افغان صدر نے یہ بھی کہا کہ امریکا افغانستان میں اپنے مستقل اڈے قائم کرنا چاہتا ہے تاکہ خطے میں اپنے لیے طاقت اور اثر و رسوخ کو یقینی بنا سکے جبکہ پاکستان افغانستان کو مبینہ طور پر ایک طفیلی ریاست میں بدل دینا چاہتا ہے۔
نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق حامد کرزئی نے اس انٹرویو میں امریکا اور پاکستان پر کئی طرح کے الزامات لگائے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی فوجی دستے افغانستان میں ’دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نہیں‘ ہیں۔ ’’میری رائے میں تو امریکا ہمیں (افغانوں کو) منقسم اور کمزور رکھنا چاہتا ہے تاکہ وہ خطے میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے عمل پیرا رہے۔‘‘
پاکستان پر ایک بار پھر کابل کی موجودہ حکومت ہی کی طرح طالبان عسکریت پسندوں کی سرپرستی کا الزام لگاتے ہوئے کرزئی نے کہا کہ پاکستان طالبان عسکریت پسندوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے، اس لیے ’امریکا کو چاہیے کہ وہ پاکستانی فوج اور انٹیلیجنس کے اعلیٰ حکام کے خلاف پابندیاں عائد کرے‘۔
سابق افغان صدر نے اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’’ہم امید کرتے ہیں کہ امریکا اب پاکستان کے حوالے سے کچھ کرے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان کے عوام کو نقصان پہنچایا جائے یا پاکستان کے خلاف کوئی جنگ شروع کر دی جائے۔ لیکن واشنگٹن کو پاکستانی فوج اور انٹیلیجنس کے اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف پابندیاں لگانا چاہییں۔‘‘
پاک افغان کشیدگی، کابل حکومت کا وفد اسلام آباد میں
افغانستان کا 70 فیصد علاقہ طالبان کے زیر تسلط چلا گیا، رپورٹ
فغانستان اور پاکستان کے حوالے سے امریکی پالیسی کے دو انتہائی اہم پہلو یہ ہیں کہ طالبان عسکریت پسندوں کو مبینہ محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے کا الزام لگا کر امریکا پاکستان کے لیے مجموعی طور پر قریب دو بلین ڈالر کی سکیورٹی امداد معطل کر چکا ہے جبکہ عسکری حوالے سے سولہ برسوں سے بھی زائد عرصے سے جاری افغانستان کی جنگ مدت ہوئی امریکا کی ’طویل ترین براہ راست جنگ‘ میں بدل چکی ہے۔