پاک افغان کشیدگی، کابل حکومت کا وفد اسلام آباد میں
31 جنوری 2018پاکستانی دفتر خارجہ کے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ان ملاقاتوں کے حوالے سے ہمارے پاس ابھی تک کچھ نہیں ہے اور نہ ہی ہم نے تاحال کوئی بیان جاری کیا ہے۔‘‘
پاکستان: افغان مہاجرین کے قیام کی مدت میں توسیع
اعلیٰ افغان اہلکار اچانک پاکستان پہنچ گئے
دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے آج بدھ اکتیس جنوری کی صبح اپنی ایک ٹویٹ میں اس امر کی تصدیق کی تھی کہ ایک افغان وفد پاکستان کا دورہ کر رہا ہے۔ انہوں نے لکھا تھا، ’’افغان حکومت نے پاکستان سے درخواست کی تھی کہ ایک اعلیٰ سطحی وفد، جس میں افغان وزیر داخلہ اور افغان انٹیلیجنس کے سربراہ ہوں گے، پاکستان کا دورہ کرنا چاہتا ہے۔ یہ وفد افغان صدر کا ایک پیغام پہنچانا اور دونوں ممالک کے مابین تعاون پر بات چیت کرنا چاہتا ہے۔‘‘
یہ ٹویٹ افغان میڈیا میں آنے والی ایک ایسی خبر کے بعد کی گئی تھی، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ صدر اشرف غنی نے پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے فون پر تعزیتی پیغام لینے سے انکار کر دیا تھا اور ایک افغان وفد کو پاکستان بھیجا ہے، جو حالیہ حملوں کے حوالے سے کچھ ثبوت لے کر جائے گا۔ پاکستان میں افغان سفیر ڈاکٹر عمر نے اس بات کی تردید بھی کر دی تھی۔
افغان میڈیا کے مطابق آج بدھ کو بھارتی وزیر اعظم مودی کی بھی صدر اشرف غنی سے فون پر بات چیت ہوئی، جس میں بھارت نے افغانستان میں حالیہ بم دھماکوں میں زخمی ہونے والوں کے لیے علاج کی پیش کش کی ہے۔
افغان وفد اپنا پاکستان کا یہ دورہ ایک ایسے وقت پر کر رہا ہے جب کابل اور اسلام آباد کے درمیان ایک بار پھر کشیدگی بڑھی ہوئی ہے۔ افغانستان میں ہونے والے چند حالیہ لیکن بہت ہلاکت خیز حملوں کی ذمہ داری طالبان قبول کر چکے ہیں۔ افغان حکومت کا دعویٰ ہے کہ افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو مبینہ طور پر پاکستان کی حمایت حاصل ہے جبکہ اسلام آباد حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔
افغانستان کا 70 فیصد علاقہ طالبان کے زیر تسلط چلا گیا، رپورٹ
طالبان کے حملے، امريکا کی نئی افغان پاليسی پر سواليہ نشان
اس دورے کے حوالے سے پاکستان کی طرف سے بدھ کی شام تک کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا تھا۔ جب ڈوئچے ویلے نے اسی دورے کے حوالے سے پاکستان کے ایک وفاقی وزیر سے رابطہ کیا تو انہوں نے اپنی شناخت میڈیا میں ظاہر نہ کیے جانے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یہ بات غلط ہے کہ اشرف غنی نے وزیر اعظم کی ٹیلی فون کال وصول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس دورے کے حوالے سے میں صرف یہی کہوں گا کہ دونوں ممالک کا یہ عزم ہے کہ وہ دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم نہیں کریں گے۔‘‘
پاکستان میں اس دورے کے حوالے سے کوئی زیادہ امیدیں نہیں باندھی جا رہیں۔ کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں آنے والے وقتوں میں افغانستان میں کشیدگی مزید بڑھے گی۔ افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے معروف صحافی رحیم اللہ یوسف زئی نے اس دورے سے متعلق اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یہ دورہ اس حوالے سے اہم ہے کہ دونوں افغان شخصیات کابل حملوں کے فوراﹰ بعد پاکستان کا دورہ کر رہی ہیں۔ ان میں سے ایک افغان وزیر داخلہ ہیں اور دوسرے ملکی انٹیلیجنس کے سربراہ، جن کے پاس عموماﹰ حملوں میں ملوث افراد کے حوالے سے معلومات ہوتی ہیں۔ تو وہ ممکنہ طور پر ان معلومات سے متعلق پاکستانی حکام سے بات کریں گے۔ افغان میڈیا کا دعویٰ ہے کہ وہ ثبوت لے کر آئے ہیں۔ تو اگر وہ ثبوت دکھائیں گے، تو پاکستان بھی ان سے اپنے ہاں ہونے والے حملوں کے حوالے سے بات چیت کرے گا اور افغان سرزمین پر پاکستانی طالبان کی تنظیم ٹی ٹی پی کی موجودگی کے حوالے سے شکایت کرے گا۔ تو میرے خیال میں اس دورے کے دوران صرف الزامات کا تبادلہ ہی ہوگا۔ اس سے کوئی خاص امید نہیں لگا ئی جا سکتی۔‘‘
طالبان سے کوئی بات چیت نہیں ہو گی، ٹرمپ
افغان فوجی بیس پر حملہ، گیارہ فوجی ہلاک
کابل حملہ: ہلاکتوں کی تعداد سو سے متجاوز، ایک روزہ قومی سوگ
ایک سوال کے جواب میں رحیم اللہ یوسف زئی نے کہا، ’’امریکی صدر ٹرمپ یہ کہہ چکے ہیں کہ افغان طالبان سے بات چیت نہیں ہو گی۔ اس بات کا امکان ہے کہ طالبان کے کچھ سرکردہ رہنماؤں کو قتل کر دیا جائے۔ کابل حکومت بھی یہ کہتی ہے کہ وہ اب اسلام آباد کے ذریعے طالبان سے بات چیت نہیں کرے گی، بلکہ اشرف غنی کی حکومت طالبان کے فیلڈ کمانڈروں سے انفرادی طور پر بات چیت کرے گی۔ پھر طالبان بھی لڑائی کے موڈ میں نظر آتے ہیں، جس کی واضح مثال ان کے تازہ ترین حملے ہیں۔ ان تمام عوامل کو دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے مہینوں میں افغانستان میں جنگ کے شعلے مزیدبڑھیں گے۔‘‘
معروف دفاعی تجزیہ نگار میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’افغانستان کے پاس کوئی ایسے ثبوت نہیں ہیں جو ان کے ملکی معاملات میں پاکستان کی مداخلت کو ثابت کر سکیں اور نہ ہی پاکستان وہاں مداخلت کرتا ہے۔ کابل انتظامیہ اپنی ناکامیاں چھپانا چاہتی ہے۔ اسی لیے ہر چیز کا الزام پاکستان پر لگا دیا جاتا ہے۔ تینتالیس فیصد افغان علاقہ طالبان کے کنٹرول میں ہے۔ اگر پاکستان میں کوئی غیر مسلح افغان پناہ گزین کی شکل میں آتا ہے، تو پاکستان کیسے پہچان سکتا ہے کہ وہ طالبان کا کوئی جنگجو ہے یا کوئی عام افغان شہری۔ اس کے علاوہ اتنے بڑے بارڈر کو کیسے کنڑول کیا جا سکتا ہے، جب تک کہ وہاں باڑ نہ ہو۔ جب پاکستان کہتا ہے کہ افغان حکومت ان مہاجرین کو واپس بلائے اور بارڈ کنڑول کے لیے پاکستان سے تعاون کرے، تو وہ اسلام آباد کی تجاویز کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔‘‘
پاکستان: امریکی ڈرون حملے میں حقانی نیٹ ورک کے کمانڈر ہلاک
کابل کے لگژری ہوٹل پر حملے کی ذمه داری طالبان نے قبول کرلی
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’پاکستان کو طالبان سے کوئی بات چیت نہیں کرنا چاہیے۔ افغان حکومت خود ان سے بات چیت کرے۔ جب بھی پاکستان نے ماضی میں طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کی، تو امریکا اور افغانستان نے اسلام آباد کو دھوکا ہی دیا۔ طالبان کے ان افراد کو مارا گیا، جو مذاکرات کرنا چاہتے تھے۔ تو اب کابل کو خود مذاکرات کرنا چاہییں۔ پاکستان کے لیے تو افغانستان میں امن ہی فائدے مند ہے۔ پاکستان وسطی ایشیا اور روس سے اپنی تجارت بڑھا سکتا ہے، اگر افغانستان میں امن ہو،تو۔ تو بھلا اسلام آباد کسی امن پالیسی کی مخالفت کیوں کرے گا؟‘‘