افغان فوجی بیس پر حملہ، گیارہ فوجی ہلاک
29 جنوری 2018افغان دارالحکومت میں پیر کے دن رونما ہونے والی ایک تازہ پرتشدد کارروائی کے نتیجے میں گیارہ فوجی مارے گئے ہیں۔ اس حملے میں دس دیگر فوجی زخمی بھی ہیں۔ حملہ آوروں کی تعداد نصف درجن کے قریب تھی۔ اس حملے میں کم از کم پانچ عسکریت مارے گئے۔ دو خودکش حملے میں اور دو کو فوج کی گولیاں لگی تھیں۔ ایک حملہ آور کو زندہ گرفتار کرنے کا بھی حکام نے دعویٰ کیا ہے۔
کابل حملہ: ہلاکتوں کی تعداد سو سے متجاوز، ایک روزہ قومی سوگ
طالبان کے خلاف ’فیصلہ کن کارروائی‘ کی ضرورت ہے، ٹرمپ
افغانستان میں داعش کی کارروائی، اس بار نشانہ امدادی ادارہ
حملہ آوروں کو ممکنہ طور پر اندرونی مدد حاصل تھی، افغان حکام
افغان وزارت دفاع کے ترجمان دولت وزیری کے مطابق علی الصبح شروع ہونے والے حملے پر اب پوری طرح قابو پایا جا چکا ہے۔ ترجمان کے مطابق جنگجوؤں نے مغربی کابل میں جس فوجی بیس پر حملہ کیا، وہ افغان ملٹری اکیڈمی کے قریب واقع ہے۔ اس جھڑپ کے دوران حملہ آوروں نے ایک درجن کے قریب بم حملے بھی کیے۔
وزارت دفاع کے ترجمان نے اُن افواہوں کی سختی سے تردید کی ہے کہ جنگجوؤں کے حملے کی زد میں ملٹری اکیڈمی ہے۔ سیٹلائٹ پکچر کے حوالے سے دیکھا جا سکتا ہے کہ اکیڈمی اور فوجی بیس قریب قریب واقع ہیں۔ وزیری کے مطابق حملے کے ختم ہونے کے بعد جنگجوؤں کے بچے ہوئے اسلحے کو قبضے میں لے لیا گیا ہے۔ ان میں ایک خود کش جیکٹ، چار کلاشینیکوف بندوقیں، راکٹ لانچر اور گرینیڈز شامل ہیں۔
افغانستان کے مشرقی حصے کے صوبوں ننگر ہار اور کنڑ میں زور پکڑتی انتہا پسند جہادی گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ جہادی گروپ کی جانب سے ایک ای میل میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا بتایا گیا تھا۔
یہ امر اہم ہے کہ گزشتہ برس اکتوبر میں عسکریت پسندوں کے حملے میں ایک بس کو ٹارگٹ کیا گیا تھا اور پندرہ کیڈٹ ہلاک ہو گئے تھے۔ پیر کا حملہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب ابھی افغانستان ہفتہ ستائیس جنوری کے ایمبولینس حملے میں ایک سو ہونے والی ہلاکتوں کے سوگ میں ہے۔