افغانستان سے امريکی فوجی انخلاء، جلد اور زيادہ
2 جون 2011معلوم ايسا ہوتا ہے کہ واپس بلائے جانے والے امريکی فوجيوں کی تعداد ابتدائی اندازے سے زيادہ ہوگی۔ موجودہ اور سابق امريکی حکومت کے چند افسران کا کہنا ہے کہ اوباما افغانستان کے جنوب ميں طالبان کے خلاف کاميابيوں اور اسامہ کی ہلاکت سے حوصلہ پاتے ہوئے اگلے سال کے دوران کم از کم 10 ہزارامريکی فوجيوں کے افغانستان سے انخلاء کا اعلان کر سکتے ہيں۔
تقريباً 10 سال کی جنگ کے بعد لڑائی کے حسب سابق جاری رہنے کی وجہ سے اس سال کے شروع ميں يہ اندازہ تھا کہ امريکی فوج کا يہ انخلاء بہت معمولی اور پانچ ہزار سے بھی کم تعداد ميں ہوگا۔
صدر اوباما نے ابھی تک اس سلسلے ميں کوئی حتمی فيصلہ نہيں کيا ہے اور جہاں تک معلوم ہے، امريکی وزارت دفاع نے بھی اس بارے ميں کوئی سفارشات پيش نہيں کی ہيں کہ جولائی کے بعد سے ايک لاکھ امريکی فوجيوں ميں سے کتنے فوجيوں کو واپس بلا ليا جائے۔
اندازہ ہے کہ افغانستان ميں نيٹو اور امريکی افواج کے کمانڈر جنرل ڈيوڈ پيٹرياس اگلے ہفتے امريکی وزير دفاع رابرٹ گيٹس کو اس سلسلے ميں اپنی تجاويز پيش کريں گے۔ صدر اوباما نے سن 2009 کے آخر ميں افغانستان ميں امريکی جنگی پاليسی کے ازسر نو جائزے کے بعد مزيد 30 ہزار فوجی افغانستان روانہ کرنے کا فيصلہ کيا تھا۔ وہ اپنے قريبی ساتھيوں سے صلاح مشوروں کے بعد اس مہينے کے وسط يا آخر ميں امريکيوں کو يہ بتائيں گے کہ وہ افغانستان سے امريکی فوج کے انخلاء کا کام کس طرح سے شروع کرنا چاہتے ہيں۔ مغربی ملکوں کے فوجی انخلاء کے ساتھ ساتھ افغان فوج اور پوليس کوسن 2014 کے آخر تک آہستہ آہستہ اپنے ملک ميں سلامتی اور امن و امان کی ذمہ داری خود سنبھالنا ہو گی۔
سينئر امريکی افسران نے واپس بلائے جانے والے فوجيوں کی تعداد کے بارے ميں قياس آرائيوں سے انکار کرديا ہے۔ سياست پر اچھی نظر رکھنے والے جنرل پيٹرياس، جنہيں صدر اوباما سی آئی اے کا اگلا سربراہ نامزد کرچکے ہيں،اس بارے ميں انتہائی محتاط ہيں تاکہ کسی افشائے راز کے نتيجے ميں وائٹ ہاؤس سے اُن کے تعلقات پر اثر نہ پڑسکے۔
ايک سابق دفاعی افسر اور Center for Strategic and International Studies کے فوجی ماہر اينتھونی کورڈس مين نے کہا کہ اگلے سال کے دوران افغانستان سے 15 ہزار امريکی فوجيوں کا انخلاء باغيوں کے خلاف لڑائی کو کسی خطرے ميں ڈالے بغير سياسی اور فوجی لحاظ سے ايک متوازن فيصلہ ہو گا۔ اُنہوں نے کہا: ’’اس يہ ظاہر ہو گا کہ آپ فوج ميں کمی کے بارے ميں سنجيدہ ہيں۔ يہ سن 2014 تک جاری رہنے والے اس انخلاء کا پہلا قدم ہوگا۔‘‘
صدر اوباما کی نظريں سن 2012 کے انتخابات ميں اپنے دوبارہ منتخب ہونے پر لگی ہوئی ہيں اور وائٹ ہاؤس ميں فوجی انخلاء کی بحث اب غير محسوس انداز ميں نائب صدر جو بائڈن کے ’دہشت گردی کے مقابلے‘ کے اُس ماڈل کی طرف جا رہی ہے، جس کی بنياد بھاری باقاعدہ لڑاکا فوج کے بجائے ٹارگٹ حملوں پر ہے۔ سرکاری افسران کا کہنا ہے کہ پچھلے سال کے دوران افغانستان ميں خصوصی فوجی دستوں کے اس طرح کے حملوں اور اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی کی کاميابی کے بعد ان لوگوں کو تقويت ملی ہے جو افغانستان سے امريکی فوج کی اور زيادہ تيزی سے واپسی کے حق ميں ہيں۔
امريکہ ميں ڈيمو کريٹک اور ريپبلکن، دونوں پارٹيوں ميں افغانستان کی جنگ کی مخالفت بڑھ رہی ہے، جس کے اخراجات اب 110 ارب ڈالر سالانہ سے بھی تجاوز کر گئے ہيں۔ِ
افغانستان سے امريکی فوج کے مرحلے وار انخلاء کی کاميابی کا انحصار کرپٹ اور کمزور افغان حکومت اور طالبان باغيوں کے درميان ايک سمجھوتہ کرانے کی مغربی ممالک کی اہليت پر ہوگا۔ امن کی کوششوں ميں امريکی قيادت امريکی وزارت دفاع کے ہاتھ ميں ہے ليکن اس کی بہت کم علامات ہيں کہ طالبان رہنماؤں سے مذاکرات، جن ميں سے اکثر کے پاکستان ميں چھپے ہونے کا گمان کيا جاتا ہے، جلد نتيجہ خيز ثابت ہوں گے۔ رجائيت پسندوں تک کا خيال ہے کہ اس ميں کئی برس لگ سکتے ہيں۔
رپورٹ: شہاب احمد صديقی
ادارت: مقبول ملک