اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے ایک ماہ بعد
1 جون 2011اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی خبرکا دنیا بھر میں اور خاص طور پر امریکہ میں بہت ہی بے چینی سے انتظار کیا جا رہا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان امریکہ کا حلیف ہے۔ ایک ماہ قبل ایبٹ آباد میں امریکی کمانڈوز کی خفیہ کارروائی کے بعد ان ساتھیوں کے تعلقات میں ایسا تناؤ پیدا ہوا کہ دوستی کی یہ ڈور ٹوٹنے کی قریب تک جا پہنچی۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے اسلام آباد کے اپنے حالیہ دورے کے دوران کہا کہ ایک دہائی سے سب سے خطرناک دہشت گرد اور دنیا کا مطلوب ترین شخص پاکستان میں رہ رہا تھا۔ اس تناظر میں امریکہ حکومت پاکستان سے واضح اقدامات کی امید کرتا ہے۔
امریکی فوج نے اس آپریشن میں پاکستان کوکسی طرح بھی شامل نہیں کیا تھا کیونکہ واشنگٹن حکام کو قوی یقین تھا کہ پاکستانی فوج اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی میں ایسے عناصر موجود ہیں، جو دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے سربراہ کا ساتھ دے رہے تھے۔ دوسری جانب امریکہ کو اس امر کا بھی اندازہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا ساتھ کتنا ضروری ہے۔ ساتھ ہی افغانستان میں دیرپا امن کے قیام کے سلسلے میں بھی پاکستان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
شاید اسی وجہ سے ہلیری کلنٹن نے دورہء اسلام آباد کے دوران مفاہمانہ رویہ بھی اختیار کیا۔ کلنٹن نے کہا کہ ایک مستحکم افغانستان امریکہ اور پاکستان دونوں کے مفاد میں ہے۔ ’’ہمیں اپنی منزل حاصل کرنے کے لیے مل کر کام کرنا ہے۔ امریکی حکمت عملی کے مطابق ہم افغان حکومت کی سربراہی میں اس منصوبے کا ساتھ دے رہے ہیں، جس کا مقصد طالبان کو القاعدہ سے الگ کرنا ہے۔ اس سلسلے ہمیں پاکستان کی بھی ضرورت ہے۔‘‘
بن لادن کی موجودگی اور ہلاکت کی وجہ سے پاکستان کی دنیا بھر میں ساکھ بری طرح متاثر ہوئی۔ ملکی پارلیمان نے ایبٹ آباد میں امریکی کارروائی کو پاکستان کی خود مختاری پرحملہ قرار دیا۔عسکری اور سیاسی قیادت نے ان الزامات کی تردید کہ پاکستان ایک دہشت گرد ملک ہے۔
پاکستانی وزیر داخلہ رحمان ملک نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا، ’’کسی کو پاکستان کی خود مختاری کے خلاف سوچنے کی بھی ہمت نہیں کرنی چاہیے۔ ہم جوابی کارروائی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر بات دہشت گردی کے خلاف جنگ کی ہے تو یہ ایک مشترکہ لڑائی ہے۔ دہشت گرد گوریلا انداز میں کارروائی کرتے ہیں اور دہشت پھیلانا ہی ان کا ہتھیار ہے۔ دہشت گردوں کو شکست دینا پاکستان اور بھارت سمیت پورے خطے کے مفاد میں ہے۔ ہمیں ان کو روکنا ہو گا تاکہ وہ ہمیں مزید دہشت زدہ نہ کرسکیں۔‘‘
اسی طرح وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے بھی اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد لندن کے اپنے ایک دورے کے دوران بااعتماد انداز میں پاکستان کا دفاع کیا۔ انہوں نے کہا، ’’ہم پوری طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ہیں۔ ہم دہشت گردی اور انتہاپسندی کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور ایسا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
یقیناً ہماری خفیہ ایجنسی امریکہ اور دنیا بھر کے ساتھ تعاون کر رہی ہے۔ اور اگر پاکستانی خفیہ ایجنسی ناکام ہوئی ہے تو دنیا بھر کی ایجنسیاں ناکام ہوئی ہیں۔‘‘
اسامہ بن لادن کی موت کے بعد بھی پاکستان اور افغانستان میں خود کش حملوں میں کمی نہیں آئی ہے۔ دونوں ملک نہ صرف دہشت گردی کے ہاتھوں مجبور ہیں بلکہ ان کی حکومتیں بھی کمزور اور بدعنوان ہیں۔