افغانستان سے انخلا: اوباما کے فیصلے پر مکین کی تنقید
4 جولائی 2011سینیٹر جان مکین نے کہا ہے کہ عسکری سفارشات کے برعکس صدر اوباما کا افغانستان سے افواج کے تیز تر انخلاء کا فیصلہ جنگ کے آئندہ بڑے مرحلے کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بات بالخصوص افغانستان کے مشرقی علاقوں میں انتہاپسندوں کے خلاف کارروائیوں کے تناظر میں کہی ہے۔
مکین اور ان کی ساتھی ریپبلیکن سینیٹر لنڈسے گراہم کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں افغان حکومت اور نیٹو افواج کے ساتھ لڑنے والے انتہاپسندوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات پر بھی تشویش ہے۔
مکین نے افغانستان کے دورہ کے موقع پر کابل میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا: ’’مجھے یقین ہے کہ انخلاء کا منصوبہ غیرضروری طور پر پُر خطر ہے اور یہی وجہ ہے کہ کسی عسکری رہنما نے اس کی سفارش نہیں کی۔‘‘
مکین نے یہ بھی کہا کہ پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی اور افغان انتہاپسندوں کے درمیان تعلقات کے کردار کو تسلیم کیے جانے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حقانی نیٹ ورک سمیت افغان انتہاپسندوں کے متعدد گروپوں کو سرحد پار ٹھکانے میسر ہیں۔
سینیٹر مکین نے مزید کہا: ’’ہمیں حقیقت پسندی کی بنیادوں پر پاکستان کا سامنا کرنا ہو گا کہ آئی ایس آئی، حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے درمیان رابطے ہیں۔‘‘
لنڈسے گراہم کا کہنا تھا: ’’جب تک پاکستان مدد نہیں کرتا، یہ سب بہت مشکل ہو گا۔ سینیٹ کے ارکان کی حیثیت سے ہمارا کام پاکستانی فوج کو یہ بتانا ہے کہ وہ دوست اور دشمن کا انتخاب کر لیں جبکہ ہم ان کے ساتھ دوستی چاہتے ہیں۔‘‘
خیال رہے کہ امریکی صدر باراک اوباما نے حال ہی میں سال کے آخر تک افغانستان سے اپنے دس ہزار فوجیوں کے انخلاء کا عمل شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئندہ موسم گرما ختم ہونے تک مزید تیئس ہزار فوجی واپس بلا لیے جائیں گے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی فوج نے خود کو اس شیڈول سے علیحدہ رکھا اور کانگریس کو بتایا کہ انہوں نے انخلاء کے عمل کو سست رکھنے کے لیے کہا تھا۔
رپورٹ: ندیم گِل/خبر رساں ادارے
ادارت: امتیاز احمد