افغانستان سے غیر ملکی افواج کی واپسی، فرانس بھی تیار
23 جون 2011فرانسسیسی صدر نکولا سارکوزی کے اس اعلان کو 2012ء کے صدراتی انتخابات کی پہلی مہم قرار دیا جا رہا ہے۔ وہ ان انتخابات میں دوسری مدت صدرات کے مقابلے کے لیے میدان میں اتریں گے۔ نکولا سارکوزی نے جمعرات کو کہا کہ افغانستان سے فرانسیسی فوجیوں کی مرحلہ وار واپسی کا عمل ویسے ہی انجام دیا جائے گا، جیسا واشنگٹن حکومت نے اپنی افواج واپس بلوانے کے لیے تجویز کیا ہے۔
بدھ کو امریکی صدر باراک اوباما نے افغانستان میں تعینات اضافی فوجیوں کی مرحلہ وار واپسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ موسم گرما تک وہ 33000 ہزار امریکی سپاہی واپس بلانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
باراک اوباما سے ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کےبعد نکولا سارکوزی نے اپنے دفتر سے ایک بیان جاری کیا، جس میں افغانستان سے فرانسیسی فوجیوں کی واپسی کا تذکرہ یوں کیا گیا،' افغانستان میں عسکری حوالے سے ہونے والی پیش رفت کے تناظر میں پیرس حکومت وہاں تعینات کیے گئے اپنے فوجیوں کی مرحلہ وار واپسی کا عمل شروع کرے گی'۔
تاہم اس بیان میں یہ ضرور واضح کیا گیا ہےکہ پیرس حکومت اپنے اتحادیوں اور افغان عوام کے ساتھ کیے گئے وعدوں پر قائم رہے گی اور افغانستان میں قیام امن کے لیے اپنی کوششوں کا سلسلہ جاری رکھے گی۔ فرانسیسی حکومت نے البتہ افغانستان میں تعینات اپنی افواج کی واپسی کے طریقہ کار پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے کہ یہ عمل کب شروع ہو گا اور ابتدائی طور پر کتنے فوجیوں کو واپس بلایا جائے گا۔
افغانستان میں اس وقت مجموعی طور پر چار ہزار فرانسیسی فوجی تعینات ہیں جبکہ طالبان باغیوں کی کارروائیوں کے نتیجے میں افغانستان میں 62 فرانسیسی فوجی مارے جا چکے ہیں۔
افغانستان سے اپنے فوجیوں کی واپسی کے امریکی اعلان کے فوری بعد فرانسیسی صدر کی طرف سے بھی ایسے ہی اعلان کو سیاسی حوالے سے اہم سمجھا جا رہا ہے۔ سارکوزی فرانس کی تاریخ میں ایک انتہائی کم مقبول صدر تصور کیے جاتے ہیں۔ ناقدین کا خیال ہے کہ 2012ء کے صدراتی انتخابات سے قبل افغانستان سے فرانسیسی سپاہیوں کی واپسی ان کی مقبولیت میں اضافہ کر سکتی ہے۔
ابھی حال ہی میں فرانسسی وزیر خارجہ الاں ژوپے نے بھی افغان جنگ کے بارے میں اپنی بے چینی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پیرس حکومت افغانستان میں تعینات اپنی افواج کو واپس بلانے کے مختلف متبادل راستوں پرغور کر رہی ہے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: امجد علی