افغان الیکشن: بے ضابطگیوں کی شکایات بھی
19 اگست 2009افغانستان میں پرتشدد واقعات میں حیران کن اضافے کے باعث ملک کے تقریباً 20 فیصد علاقوں میں بیلٹ پیپر اور بیلٹ بوکسس کی فراہمی ناممکن ہوگئی ہے۔ ملک میں صدارتی الیکشن اب سے کچھ ہی گھنٹوں بعد شروع ہوجائیں گے تاہم ملک میں تشّدد کے بڑھتے ہوئے واقعات نے الیکشن کمیشن کے اہلکاروں کی کئی علاقوں تک رسائی ناممکن بنادی ہے۔ افغانستان کے 34 صوبوں میں 28 ہزار ہانچ سو پولنگ اسٹیشن قائم کئے گئے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے سینئر اہلکار داؤد علی نجف اس حوالے سے کہتے ہیں: "ہمیں کئی انتخابی حلقوں تک درکار ضروری سامان فراہم کرنے میں دشواری پیش آرہی ہے۔"نجف کے مطابق پہلے تو یہ طے کیا گیا تھا کہ ان علاقوں تک ہیلی کاپٹر کے ذریعے پولنگ سامان پہنچا دیا جائے گا۔
افغان دارالحکومت کابل میں موجود پاکستانی صحافی احمد ولی مجیب انتخابات سے قبل افغان عوام میں پائے جانے والے جوش و خروش کے بارے میں کہتے ہیں: ’’ڈوئچے ویلے اردو سروس سے گفتگو میں احمد مجیب نے مذید کہا کہ کابل شہر کو چھوڑ کر افغانستان کے دیگر علاقوں میں انتخابات کے حوالے سے جوش و خروش میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے جبکہ طالبان کے حملوں کے باعث ووٹرز میں خوف و ہراس بھی ہے۔‘‘
دریں اثنا افغانستان میں انتخابی عمل کا جائزہ لینے کے لئے وہاں ملکی و غیر ملکی صحافیوں کو سیکیورٹی اہلکار نہ صرف ہراساں کر رہے ہیں بلکہ بیشتر کے ساتھ پرتشّدد واقعات کی رپورٹنگ کے باعث زیادتی بھی کی جاتی ہے۔
کابل کی وزارت خارجہ نے منگل کو صحافیوں سے "درخواست " کی تھی کہ وہ انتخابات کے روز پر تشدد واقعات کی رپورٹنگ سے گریز کریں کیونکہ حکام کے بقول ووٹر ٹرن آوٹ پر اس کے منفی اثرات پڑھ سکتے ہیں۔
دوسری جانب صدارتی امیدوار عبداللہ عبداللہ کے ساتھ ساتھ کئی بین الاقوامی مبصرین بھی الیکشن کے شفاف انعقاد کے بارے میں متفکر ہیں۔ سابق وزیر خارجہ عبداللہ عبداللہ نے الزام عائد کیا ہے کہ حکومت کی جانب سے ووٹنگ کے لئے رجسٹرڈ شدہ رائے دہندگان کی تعداد اصل تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔
افغان حکومت کے مطابق ملک میں 17 ملین ووٹرز رجسٹرڈ ہیں جبکہ عبداللہ عبداللہ کا دعویٰ ہے کہ افغانستان کی کل آبادی 30 ملین ہے اور اس تعداد کا نصف سے زائد حصّہ 18 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔
دریں اثنا افغانستان میں شفاف الیکشن کے انعقاد کے لئے یورپی یونین نے 100مبصرین کو وہاں بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ افغانستان میں امریکہ اور اس کے41 اتحادی ملکوں کےایک لاکھ ایک ہزار فوجی اس وقت طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن میں مصروف ہیں۔
رپورٹ: میرا جمال
ادارت: گوہر گیلانی