اقوام متحدہ: شامیوں کی دوبارہ آبادکاری کے لیے سمٹ مارچ میں
21 نومبر 2015اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرت کے مطابق شام میں پچھلے پانچ سالوں سے جاری خانہ جنگی کے باعث بیالیس لاکھ شامی باشندے بے گھر ہو کر لبنان، ترکی، اردن اور عراق میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ رواں برس ان شامی مہاجرین میں سے کئی نے یورپ کا رخ بھی کیا۔
پچھلے ہفتے ’دولت اسلامیہ‘ کی جانب سے پیرس پر حملوں کے بعد یورپ اور امریکا کے کچھ سیاست دانوں نے ایسے خدشات کا اظہار کیا تھا کہ مکمل چھان بغیر کے بغیر تارکین وطن کو پناہ دینے سے ان ممالک میں دہشت گرد بھی مہاجرین کے روپ میں داخل ہو سکتے ہیں۔
بان کی مون نے اقوام متحدہ کی جنرل اسملی کو بتایا کہ انہیں ’’بالخصوص مسلمان تارکین وطن اور مہاجرین کے حوالے سے پائے جانے والے بے جا خدشات‘‘ پر تشویش ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا،’’ہمیں ایسے تعصب اور امتیاز سے بچنا ہو گا جس کا فائدہ صرف ان دہشت گردوں کو پہنچتا ہے جو خوف، دہشت اور تقسیم پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں اپنا ردعمل دروازے بند کر کے نہیں بلکہ کھلے دل، اتحاد، برداشت، جمعیت اور رحم کے جذبے سے جواب دینا چاہیے۔‘‘
بان کی مون نے یہ بھی بتایا کہ اگلے برس مارچ کے مہینے میں اقوام متحدہ کے کمشنر برائے مہاجرین کی جانب سے شام میں خانہ جنگی کے باعث بے گھر ہونے والے پناہ گزینوں کی دوبارہ آباد کاری کے لیے ایک کانفرنس کا اہتمام کیا جائے گا۔
امریکی ایوان نمائندگان نے صدر براک اوباما کی جانب سے ویٹو کرنے کی دھمکی کے باوجود ریپبلکن نمائندوں کی جانب سے پیش کیا گیا ایک بل بھاری اکثریت سے منظور کر لیا ہے۔ اس بل میں اوباما حکومت کی جانب سے اگلے برس دس ہزار شامی مہاجرین کو امریکہ میں پناہ دینے کے فیصلے کو معطل کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
ریپبلکن پارٹی کے نمائندوں کو اندیشہ ہے کہ فرانس کی طرح امریکہ میں بھی عسکریت پسند مہاجرین کے بھیس میں داخل ہو کر دہشت گردی کی کارروائی کر سکتے ہیں۔ پیرس حملوں میں ملوث ایک دہشت گرد مبینہ طور پر مہاجر بن کر یورپ میں داخل ہوا تھا۔
بان کی مون نے شامی مہاجرین کے حوالے سے پائے جانے والے ان شکوک و شبہات کی نفی کرتے ہوئے کہا، ’’لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین جنہوں نے تشدد اور جبر کے ہاتھوں اپنا سب کچھ کھو دیا ہے، وہی لوگ سب سے زیادہ تشدد کا خاتمہ چاہتے ہیں۔‘‘
بان کی مون نے یہ بھی بتایا کہ آئندہ برس ستمبر میں منعقد ہونے والے اقوام متحدہ کے سالانہ سربراہ اجلاس سے ایک دن قبل وہ تارکین وطن اور مہاجرین کی بڑے پیمانے پر نقل و حمل کو منظم کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی سمٹ کا انعقاد کریں گے۔