لیبیا میں اذیت، تشدد اور جنسی غلامی کے ثبوت، اقوام متحدہ
28 مارچ 2023اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ ایک انکوائری سے معلوم ہوا ہے کہ لیبیا میں سکیورٹی فورسز اور مسلح ملیشیا گروپوں نے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا سنگین ارتکاب کیا ہے۔
لیبیا میں کئی ٹن یورینیم غائب، آئی اے ای اے کا اظہار تشویش
اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کونسل کے فنڈز کے ذریعہ متعین کردہ کمیشن کے تفتیش کاروں نے پا یا کہ ''مہاجرین کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا اور اس بات کے بہت زیادہ شواہد موجود ہیں کہ انہیں منظم طریقے سے تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
20 تارکین وطن پیاس کے سبب ہلاک، 30 بحیرہ روم میں لاپتہ
تین آزاد تفتیش کاروں کی ٹیم پر مبنی اس کمیشن نے 27 مارچ پیر کے روز اپنی رپورٹ جاری کی، جس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے پاس یہ یقین کرنے کی معقول بنیادیں ہیں کہ جنسی غلامی کے واقعات بھی ہوتے رہے ہیں۔
لیبیا دوبارہ سیاسی انتشار کی دلدل میں اُترتا ہوا
تحقیقات کی قیادت کرنے والے محمد عزیرنے کہا، ''اس وسیع تر استثنیٰ کو ختم کرنے کے لیے احتساب کی فوری ضرورت ہے۔''
لیبیا کے وزیر اعظم پر قاتلانہ حملہ، بال بال بچے
یورپی فنڈنگ نے ایسے جرائم میں تعاون کیا
تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ ''اس بات پر یقین کرنے کی معقول بنیادیں موجود ہیں کہ لیبیا بھر میں تارکین وطن کو انسانیت کے خلاف جرائم کا شکار بنایا گیا اور غیر قانونی حراست کے دوران قتل کرنے، جبری گمشدگی، اذیت دینے، غلام بنانے، جنسی تشدد کرنے، ریپ کرنے جیسے دیگر غیر انسانی سلوک ان کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔''
رپورٹ میں خاص طور پر لیبیا کے ان ساحلی محافظوں کا ایسی بدسلوکیوں کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے، جن کی یورپی یونین گزشتہ کئی برسوں سے حمایت کرتی رہی ہے۔
تفتیش کار شلوکا بیانی کا کہنا ہے، ''یورپی یونین مہاجرین کو پیچھے دھکیلنے اور انہیں روکنے کے لیے لیبیا کے ساحلی محافظوں کو جو حمایت دیتی ہے، وہ بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سبب بنی ہے۔''
ان کا مزید کہنا تھا، ''آپ لوگوں کو ان علاقوں میں واپس نہیں دھکیل سکتے جو غیر محفوظ ہیں، اور لیبیا کے پانی تارکین وطن کے سفر کے لیے قطعی طور پر غیر محفوظ ہیں۔''
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ لیبیا کے کوسٹ گارڈز اسمگلنگ کرنے والے نیٹ ورکس کے ساتھ ''قریبی ہم آہنگی'' میں کام کرتے ہیں۔'' اس میں کہا گیا کہ ''کمزور اور وسیع پیمانے پر بے سہارا تارکین وطن کا استحصال'' ''آمدن'' میں اضافے کا باعث رہا ہے، جس نے حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کو مزید ہوا دی۔
بیانی کا مزید کہنا تھا کہ یورپی یونین جنگی جرائم کا ذمہ دار نہیں ہے، تاہم اس کی جانب سے ''فراہم کی گئی حمایت جرائم کرنے میں مدد گار اور حوصلہ مند ثابت ہوئی ہے۔''
یوروپی کمیشن کے ترجمان پیٹر اسٹانو نے اس کے رد عمل میں کہا کہ یورپی یونین نے لیبیا کے ساحلی محافظوں کو ''اور نہ ہی لیبیا میں کسی دوسرے ادارے کو فنڈز فراہم کیے ہیں۔'' ان کا مزید کہنا ہے کہ یورپی یونین کی مدد کا مقصد ''ان کی کارکردگی کو بہتر بنانا ہے۔''
زیادتیوں سے متعلق وافر ثبوت
لیبیا میں اقوام متحدہ کی جانب سے حقائق کی تلاش کے لیے اس آزاد مشن کو تقریباً تین برس قبل حقوق کی خلاف ورزیوں اور زیادتیوں کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ اس کی حتمی رپورٹ سینکڑوں لوگوں کے انٹرویوز پر مبنی ہے، جن میں مہاجرین اور بہت سے گواہ بھی شامل ہیں۔
اس کے مطابق گرچہ تارکین وطن کو جرائم کا خمیازہ زیادہ بھگتنا پڑتا ہے، تاہم چونکہ حکام نے سول سوسائٹی کے اختلافات کو روکنے کی کوشش کے تحت اہلکاروں کو زیادہ اختیارات دے رکھے ہیں، اس لیے عام لیبیائی باشندوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
رپورٹ میں ''من مانی حراست، قتل، تشدد، جنسی زیادتی، غلامی، جنسی غلامی، ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگی کے واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے، جو لیبیا میں اس طرح کے وسیع پیمانے کے چلن کی تصدیق کرتے ہیں۔''
تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ حراست میں لیے گئے لوگوں کو باقاعدگی سے ''اذیتیں دی جاتی ہیں اور تشدد کرنے کے ساتھ ہی انہیں اس طرح قید تنہائی میں رکھا جاتا ہے کہ وہ کسی سے رابطہ نہ کر سکیں۔ انہیں پانی، خوراک، بیت الخلا، صفائی، روشنی، ورزش، طبی دیکھ بھال، قانونی مشاورت، اور خاندان کے افراد کے ساتھ رابطے تک مناسب رسائی نہیں دی جاتی ہے۔''
ان کا کہنا تھا کہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم سے متعلق ان ثبوتوں کو بین الاقوامی فوجداری عدالت کو بھیج دیا جائے گا۔
ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)