الیکشن کمیشن نے پنجاب میں انتخابات کے لیے شیڈول جاری کر دیا
5 اپریل 2023الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں پنجاب میں چودہ مئی کوانتخابات کے انعقاد کے لیے شیڈول جاری کر دیا ہے۔ اسی سی پی کی طرف سے بدھ کے روز جاری کیے گئے شیڈول کے مطابق کاغذات نامزدگی کے خلاف اپیلیں دس اپریل تک دائر کی جا سکتی ہیں جبکہ امیدوار انیس اپریل تک اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے سکتے ہیں۔
پاکستان کا آئینی و سیاسی بحران: ’بہتری کی کوئی امید نہیں‘
امیدواروں کو بیس اپریل کو انتخابی نشان الاٹ کر دیے جائیں گے اور چودہ مئی کو پولنگ ہوگی۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے یہ شیڈول سپریم کورٹ کے فیصلے کے صرف ایک دن بعد جاری کیا گیا ہے۔
اس سے قبل منگل کے روز وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں وفاقی کابینہ کے نے عدالتی فیصلے کو مسترد کر دیا تھا۔ علاوہ ازیں سابق وزیراعظم نواز شریف کے بعد ان کی صاحبزادی مریم نواز شریف نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے پر کڑی تنقید کی۔
سپریم کورٹ فیصلے پر حکومت برہم، پی ٹی آئی کی طرف سے خیرمقدم
ن لیگی قیادت کا سخت ردعمل
مریم نواز شریف نے آج بروز بدھ راولپنڈی میں ن لیگ کے ایک وکلا کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس کے سامنے بے شمار سوالات رکھے اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ مریم نواز نے کہا کہ خود سپریم کورٹ کے جج پنجاب میں انتخابات کے حوالے سے فیصلے کو نہیں مانتے تو بائیس کروڑ عوام اسے کیسے مان لیں گے۔ انہوں نے چیف جسٹس سے سوال کیا کہ وہ اس وقت جذباتی کیوں نہیں ہوئے، جب نون لیگ کے رہنماوں پر جھوٹے مقدمے بنائے گئے، فائز عیسیٰ پر دشنام طرازی کی گئی، منتخب وزیر اعظم کو ہٹایا گیا اور جب نون لیگ کے لوگوں کو کہا گیا کہ پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کریں۔
دوسری طرف نواز شریف نے پنجاب میں انتخابات سے متعلق فیصلہ سنانے والے عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ میں شامل چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منیب اختر اور جسٹس اعجاز الحسن کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کا مطالبہ کیا ۔
حکم عدولی کے سنگین نتائج
قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان میں اس سے پہلے بھی متنازع فیصلے ہوئے ہیں اور سپریم کور ٹ کا انتخابات سے متعلق تازہ فیصلہ بھی متنازعہ ہے۔ ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنائے جانے کے فیصلے کے علاوہ جنرل پرویز مشرف تک فوجی حکمرانوں کے اقتدار کو دوام دینے کے لیے عدالتی فیصلوں کو متنازعہ قرار دیا جاتا ہے۔
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے معروف قانون دان راہب بلیدی کا کہنا ہے حکومت کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں تھاکہ وہ اس فیصلے کو تسلیم کرتی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ ایک متنازعہ فیصلہ ہے لیکن آخر کار یہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے۔ تو حکومت کو اس فیصلے پر عمل کرنا پڑنا تھا اگر وہ عمل نہیں کرتی تو پھر اسے توہین عدالت کا سامناکرنا پڑتا۔''
توہین عدالت کی تلوار
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین کا کہنا ہے کہ اگر کسی سرکاری ملازم یا عہدے دار کے خلاف توہین عدالت ثابت ہو جاتا ہے اور اس کو سزا ہو جاتی ہے، تو پھر وہ اس عہدے پر برقرار نہیں رہ سکتا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''برطانوی دور میں ایک انگریز سرکاری افسر کو توہین عدالت کی سزا دی گئی تھی اور وہ اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ بالکل اسی طرح پاکستان میں بھی ایک وزیر اعظم کو توہین عدالت کی سزا ہوئی اور وزیراعظم نہیں رہے۔ تو یہ واضح ہے کہ توہین عدالت کی اگر کارروائی ہوتی ہے، تو جن لوگوں کو سزا ہوگی وہ اپنے عہدوں پہ نہیں رہیں گے۔''
تاہم کچھ قانونی ماہرین اس رائے سے اختلاف کرتے ہیں ہیں ان کے خیال میں اس متنازع فیصلے کی وجہ سے سے توہین عدالت کی شق لگنا ممکن نہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی کے خیال میں میں اگر حکومت اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں کرتی تو توہین عدالت نہیں لگ سکتی۔
ججوں کے خلاف ریفرنس
کچھ قانونی حلقوں میں یہ بحث ہورہی ہے کہ اگر ججوں کے خلاف کوئی ریفرنس دائر ہو جاتا ہے تو کیا وہ توہین عدالت کے کسی مقدمے کی سماعت کر سکیں گے یا سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں شرکت کر سکیں گے۔ جسٹس وجیہہ کے مطابق صرف ریفرنس بھجینے کے بعد کسی جج کو کام سے روکا نہیں جا سکتا۔
لیکن امان اللہ کنرانی کا خیال ہے کہ اگر چیف جسٹس کے خلاف بھی ریفرنس دائر کیا جاتا ہے تو وہ پھر قانونی طور پر سپریم جوڈیشل کونسل کی صدارت نہیں کر سکتے کیونکہ چیف جسٹس سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین ہوتے ہیں اس لئے وہ خود بیٹھ کر اپنے خلاف فیصلہ نہیں کر سکتے۔
تاہم اب الیکشن کمشین کی طرف سے انتخابی شیڈول جاری کر کے بظاہر عدالتی حکم پر عملد رآمد کر دیا گیا ہے۔ ایسے سیاسی رہنماؤں کے عدالتی فیصلے سے متعلق بیانات محض سیاسی مقاصد کے لیے تو ہو سکتے ہیں لیکن عملاﹰ وہ انتخابات کے انعقاد پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔