امریکا سرد جنگ کی سوچ ترک کرے، چین
21 جنوری 2018چین نے امریکا سے کہا ہے کہ وہ سرد جنگ کے دور کی سوچ کو ترک کرتے ہوئے ايسی ذہنيت سے باہر نکل آئے۔ بیجنگ حکومت کا یہ بیان جمعہ انیس جنوری کو جاری کردہ نئی امریکی ڈیفنس اسٹریٹیجی کے تناظر میں جاری کیا گیا ہے۔ اس پالیسی بیان میں امریکی حکومت نے اپنی نئی دفاعی ترجیحات کو واضح کیا۔
امریکا جوہری ڈیل کو ختم کرنے میں ناکام ہو گیا، روحانی
روس بحری جہاز سے شمالی کوریا کو تیل فراہم کیا گیا، ذرائع
'ایشیا کو امریکا کی ضرورت ہے، ٹرمپ کی نہیں‘
ٹرمپ کا دورہ چين: شمالی کوريا اور تجارتی امور اہم
چین کی وزارتِ دفاع کے ترجمان نے نئی امریکی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے اپنا بیان جاری کیا۔ ترجمان نے نئی امریکی دفاعی تزویری پالیسی کو سرد جنگ کے دور کی سوچ کا تسلسل قرار دیا ہے۔ ترجمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکی پالیسی میں جیت اور ہار کو حسابی جمع تفریق کر کے برابر کرنے کی ایک کوشش کی گئی ہے۔
اس نئی اسٹریٹیجی میں امریکی حکومت نے ریاستوں کے درمیان تزویری مسابقت کو فوقیت دینے کا اشارہ دیا ہے۔ اسی پالیسی کے تحت امریکی حکومت نے دہشت گردی پر بنیادی توجہ کم کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔
امریکی دفاعی حکمت عملی کی نئی ترجیحات میں ایسی اقتصادی پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کا واضح عندیہ دیا گیا ہے، جن کا مقصد چند ریاستوں کو خوفزدہ کرنا مقصود ہو گا۔ امریکا کا اشارہ بحیرہ جنوبی چین کے تنازعے کے تناظر میں چین کی جانب ہے۔
چین کی سرکاری نیوز ایجنسی شنہوا کے مطابق وزارت قومی دفاع کے ترجمان نے مزید یہ بھی کہا کہ بیجنگ کو حق حاصل ہے وہ اپنی حاکمیت و سالمیت کو برقرار رکھے اور وہ جب چاہے اور جہاں چاہے بحیرہ جنوبی چین میں فوج متعین کر سکتا ہے۔ ترجمان کے مطابق اس چینی حق پر تنقید کرنے والے ممالک یقینی طور پر امن پر یقین نہیں رکھتے اور وہ خود اس علاقے میں اپنی اپنی فوج تعینات کرنے کے خواہشمند ہیں۔
چین یہ پہلے بھی کہہ چکا ہے کہ ابھی تک امریکا سرد جنگ کی سوچ کے دائرے سے باہر نکل نہیں سکا ہے۔ یہ سابقہ چینی بیان کینیڈا کے شہر وینکوور میں شمالی کوریا کے حوالے سے طلب کی گئی بیس ملکوں کی کانفرنس کے اعلامیے کے رد عمل ميں سامنے آیا تھا۔ چين اس اجلاس ميں شامل نہيں تھا۔