ٹرمپ کا دورہ چين: شمالی کوريا اور تجارتی امور اہم
9 نومبر 2017امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ان دنوں مشرقِ بعید کے پانچ ملکوں کے دورے کے دوران چین پہنچے ہوئے ہیں۔ انہوں نے شمالی کوریائی تنازعے کے ساتھ ساتھ امریکا اور چین کے تجارتی معاملات میں پیدا اختلافی صورت حال کو چینی صدر کے ساتھ گفتگو میں شامل کیا۔
’امریکا میں سی فوڈ شمالی کوریا سے جاتا ہے‘
’اپنے دوست صدر ٹرمپ کی آمد کا منتظر ہوں‘، چینی صدر
شمالی کوریا کے حلیف چین کا اقوام متحدہ کی پابندیوں پرعمل شروع
چین کے صدر شی جن پنگ نے کہا کہ صدر ٹرمپ کے دورے سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں گرم جوشی اور بہتری کا تاریخی موڑ آیا ہے۔ تجارتی معاملے پر شی جن پنگ نے کہا کہ اُن کا ملک امریکی سمیت دوسری غیر ملکی کمپنیوں کے لیے شفاف اور کھلی پالیسی رکھتا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے امریکی کمپنیوں کے سربراہان کو خوش آمدید بھی کہا۔ چینی صدر کے ساتھ بات چیت کے دوران ٹرمپ نے دو طرفہ تجارت میں عدم توازن کی جانب اشارہ کیا تھا۔
چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ گفتگو کے بعد ٹرمپ نے کہا کہ وہ اور چینی صدر یقین رکھتے ہیں شمالی کوریا کے مسئلے کا حل یقینی طور پر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے چینی صدر سے کہا کہ وہ شمالی کوریا کے ساتھ اپنے مالی تعلقات کو منقطع کرنے کے علاوہ اس تنازعے کے پرامن حل کے حصول میں عملی پیش رفت کریں۔ اس موقع پر ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے بھی شمالی کوریائی تنازعے کے حل میں کردار ادا کرنے کو اہم قرار دیا۔
ٹرمپ کے دورے کے دوران چینی اور امریکی کی کمپنیوں کے درمیان 250 بلین ڈالر کے مختلف سمجھوتے طے پائے ہیں۔ ان سمجھوتوں کے طے کرنے کا اعلان بھی امریکی صدر نے اپنی تقریر میں کیا۔ یہ اربوں ڈالر کے سمجھوتے چین اور امریکا کی کئی بڑی کمپنیوں کے سربراہان کے درمیان طے پائے۔ ایسا خیال کیا گیا ہے کہ ان سمجھوتوں سے امریکی کمپنیوں کے اُس خدشے کا ازالہ ہو سکے گا کہ چین کے اندر کاروبار کے لیے انہیں رسائی حاصل نہیں ہے۔
آٹھ نومبر کو امریکی صدر کے لیے بیجنگ کے گریٹ ہال کے باہر خصوصی استقبال کا انتظام کیا گیا تھا۔ استقبالیہ تقریب کو چین کے سرکاری ٹیلی وژن پر براہِ راست نشر کیا گیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق صدر شی جن پنگ نے اپنے امریکی ہم منصب کو غیرمعمولی انداز میں خوش آمدید کہا ہے۔ اس سے قبل سابق صدر باراک اوباما کے چینی دورے کے دوران انہیں ریڈ کارپٹ استقبال نہیں دیا گیا تھا۔