امریکا نے یورپ کے لیے مزید فوج بھیجنے کا اعلان کر دیا
3 فروری 2022امریکی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے مشرقی یورپ میں اضافی افواج کی تعیناتی کو منظوری دے دی ہے۔ اس منصوبے کے تحت، امریکا مبینہ طور پر تقریباً 2000 امریکی فوجی پولینڈ اور جرمنی بھیجے گا، جب کہ ایک ہزار فوجی جرمنی سے رومانیہ منتقل کیے جائیں گے۔
ڈی ڈبلیو کی نامہ نگار ٹیری شولٹز کے مطابق، پولینڈ میں فوجیوں کو انتہائی الرٹ پر رکھا جائے گا۔ تاہم پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ فوجی یوکرائن میں لڑنے کے لیے نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا، ''یہ کوئی مستقل طور کی نقل و حرکت نہیں ہیں۔ یہ بس موجودہ حالات کے پیش نظر ایک جوابی اقدام ہے۔''
پینٹاگون نے یہ بھی بتایا کہ جرمنی میں مقیم تقریباً 1,000 امریکی فوجیوں پر مشتمل اسٹرائیکر اسکواڈرن کو رومانیہ بھیجا جائے گا۔ اس نے مزید کہا کہ تقریباً 1,700 فوجی، خاص طور پر 82ویں ایئر بورن ڈویژن سے، امریکا سے پولینڈ میں تعینات کیے جائیں گے اور دیگر 300 فوجی جرمنی پہنچیں گے۔
واشنگٹن میں ڈی ڈبلیو کے نامہ نگار اولیور سلیٹ کے مطابق چونکہ یورپ میں پہلے ہی سے 60,000 امریکی فوجی تعینات ہیں، اس لیے یہ محض ایک علامتی اقدام ہے۔
پولینڈ کے وزیر دفاع ماریوز بلاسزاک نے ٹویٹر پر اپنی ایک پوسٹ میں فوجیوں کی تعیناتی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا، ''پولینڈ میں امریکی موجودگی کو 1,700 مزید فوجیوں سے مضبوط کرنا، یوکرائن کے خلاف ممکنہ روسی جارحیت کے جواب میں یکجہتی کا ایک مضبوط اشارہ ہے۔''
نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے بھی فوج کی اس تعیناتی کا خیر مقدم کیا۔
روس نے اس اقدام کو تباہ کن بتایا
اس امریکی اعلان کے فوری بعد کریملن نے اس تعیناتی کو ایک ''تباہ کن'' اقدام قرار دیا۔ روسی نائب وزیر خارجہ الیگزینڈر گرشکو نے روس کی انٹرفیکس نیوز ایجنسی سے کہا، ''کسی کی طرف سے کچھ بھی ثابت نہیں کیا گیا، تباہ کن اقدامات فوجی کشیدگی میں اضافہ کرتے ہیں اور سیاسی فیصلوں کی گنجائش کو کم کرتے ہیں۔''
یورپ میں میزائل کی تعیناتی میں کمی کا امکان
یورپ میں امریکی فوجیوں کی مزید تعیناتی کا یہ اعلان افشا ہونے والی ان دستاویزات کے بعد سامنے آیا ہے جس میں امریکا نے روس کو بتایا ہے کہ وہ میزائلوں کی تعیناتی کے معاہدے پر بات کرنے کے لیے تیار ہے۔
اس ضمن میں ہسپانوی روزنامہ ایل پیس نے نیٹو اور امریکا سے منسوب وہ دو دستاویزات شائع کی ہیں، جو یورپ میں روسی سیکورٹی کے مطالبات کے جواب میں پیش کی گئی تھیں۔
اس میں لکھا ہے، ''امریکا شرائط پر مبنی باہمی شفافیت کے اقدامات کے تحت، زمین سے مار کرنے والے میزائل سسٹمز اور یوکرائن کی سرزمین میں جنگی مشن کے ساتھ مستقل افواج کی تعیناتی سے باز رہنے کے لیے باہمی وعدوں پر بات کرنے کے لیے تیار ہے۔''
امریکا نے کہا کہ وہ، ''رومانیہ اور پولینڈ میں ایجیز اشور کے مقامات پر ٹوما ہاک کروز میزائلوں کی عدم موجودگی کی تصدیق کے لیے بھی شفافیت کے طریقہ کار پر بات کرنے کے لیے تیار ہے۔''
ایجیز اشور پر امریکی سسٹم مختصر یا درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں سے دفاع کے لیے ہیں۔ تاہم روس کا دعویٰ ہے کہ یہ سسٹم ٹوماہاک درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں سے لیس ہو سکتے ہیں اور روس پر حملہ کرنے کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں۔
دستاویز میں کہا گیا ہے کہ اس مسئلے پر بھی بات چیت کے لیے نیٹو کے اتحادیوں، بالخصوص رومانیہ اور پولینڈ کے ساتھ، قریبی مشاورت کرنی ہو گی۔ دستاویزات میں یوکرائن کی نیٹو میں شمولیت کے حوالے سے کوئی ذکر نہیں ہے۔
حالانکہ یہی سب سے اہم مسئلہ جس نے ماسکو کو پریشان کر رکھا ہے۔ نیٹو کی دستاویز میں، 30 اتحادیوں نے کہا کہ وہ، ''نیٹو کی اوپن ڈور پالیسی کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہیں۔''
جرمن چانسلر کا دورہ ماسکو
جرمن چانسلر اولاف شولس نے بدھ کے روز اعلان کیا کہ وہ جلد ہی ماسکو میں پوٹن سے ملاقات کے لیے روس کا دورہ کرنے والے ہیں۔
سرکاری نیوز چینل زید ڈی ایف کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا، ''میں جلد ہی ماسکو میں (پوٹن سے) ان موضوعات کے بارے میں بات کروں گا جو بہت ضروری ہیں۔ یورپی یونین اور نیٹو کے درمیان مربوط سیاست کی ضرورت ہے۔''
انہوں نے سفر کے لیے کوئی تاریخ نہیں بتائی تاہم کہا کہ یہ بہت جلد ہو گا۔ وہ یوکرائن کے بحران پر بات چیت کے لیے سات فروری کو وائٹ ہاؤس میں صدر جو بائیڈن سے بھی ملاقات کرنے والے ہیں۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)