ہفت روزہ 'لیل و نہار‘ اردو صحافت کا شعلہ مستعجل تھا۔ 20 جنوری 1957ء کو اس ہفت روزے کا پہلا شمارہ شائع ہوا۔ 18 اپریل 1959ء کو پروگریسو پیپرز لمیٹڈ پر ایوب آمریت کے شب خون کے بعد 'لیل و نہار‘ معیار اور شناخت کھو بیٹھا۔ اشفاق احمد اور صوفی تبسم نے کچھ عرصہ ادارت کی ذمہ داری نبھانا چاہی مگر سبط حسن کا خلا پورا کرنا کارے دارد تھا۔ حقیقی طور پر محض سوا دو برس شائع ہونے والے اس پرچے نے اردو کی ہفت روزہ صحافت پر ان مٹ نقوش چھوڑے۔
گوجرانوالہ کی ایک نیم تاریک دو چھتی میں دیگر جرائد سمیت لیل و نہار کی دو سالہ مجلد فائل بھی رکھی تھی جسے گھر والوں سے آنکھ بچا کے پڑھا جاتا تھا کیونکہ قصباتی معاشرت میں نصاب سے ہٹ کر کچھ پڑھنا بے راہ روی سمجھا جاتا تھا۔ اس فائل میں مئی 1957ء کا جنگ آزادی نمبر خاصے کی چیز تھا۔ اسے اتنی بار پڑھا گیا کہ قریب قریب حفظ ہو گیا۔ کچھ ادھ مٹے نقوش میں ایک تحریر کا عنوان یاد رہ گیا ہے، 'چین کتنی دور ہے؟‘۔ سبط حسن نے لکھا کہ 19 اپریل 1959ء کی صبح سرائے رتن چند کے بس سٹاپ کی طرف جاتے ہوئے رک کر اپنے دفتر میں جھانکا تو وہاں دنیا ہی بدل چکی تھی۔ رات کے کسی پہر میں قدرت اللہ شہاب 'نیا ورق‘ کے عنوان سے پاکستان ٹائمز کا اداریہ لکھ گئے تھے۔ یہ عجب معمہ ہے کہ ہماری افتاد میں قدامت پسندی کے ساتھ ساتھ نئے پن سے چیٹک بھی شامل رہی ہے۔ نیا ورق، نیا نظام، نیا رہنما اور پھر نیا پاکستان۔ ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں۔
"چین کتنی دور ہے؟" کا عنوان اس لیے یاد آیا کہ رخصت ہونے والے وزیراعظم عمران خان نے اپنے خلاف عدم اعتماد کو امریکا کی سازش بتایا ہے۔ اس ضمن میں ایک خط کا ذکر بھی چلا جسے بعد ازاں پاکستان کے سفیر اسد مجید کا مراسلہ قرار دیا گیا۔ یہ سوال تو شاید تحقیق طلب ہی رہے گا کہ مذکورہ مراسلے اور حزب اختلاف میں تعلق کیسے ثابت ہوا؟ پاکستان اور امریکہ کی سفارتی تاریخ میں امریکی عہدیداروں کے رعونت آمیز بلکہ ناقابل اشاعت لب و لہجے کے دستاویزی حوالے موجود ہیں۔ ان دنوں جس جملے کی آڑ میں شہباز شریف کو رگیدا جا رہا ہے، وہ تو قدرت اللہ شہاب نے صدر ایوب سے منسوب کر رکھا ہے۔ برما شیل کے کسی امریکی ایگزیکٹو کے فون پر صدر ایوب کے بارے میں بدزبانی پر شہاب صاحب نے شکایت کی تو ایوب خان نے، بقول شہاب صاحب، یہی کہا تھا، Beggars are not choosers۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ”امریکی خط" کے نشانات بہت دور تک جاتے ہیں۔ 30 اپریل 1977ء کی سہ پہر راولپنڈی کے راجہ بازار میں ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے امریکی وزیر خارجہ سائرس وانس کا جو خط لہرایا تھا، اس کی حقیقت محض یہ تھی کہ بھٹو صاحب نے 28 اپریل کو قومی اسمبلی میں ایک دھواں دھار تقریر کرتے ہوئے نام لیے بغیر امریکہ کو اپنے خلاف احتجاجی تحریک کا محرک ٹھہرایا تھا۔ سائرس وانس نے اپنے خط میں شکوے شکایت کے لیے سفارتی ذرائع بروئے کار لانے کی تجویز دی تھی۔ بہت برس بعد بے نظیر بھٹو کے خلاف بھی ایک ”امریکی خط" کا طوفان اٹھا۔ 1990ء میں بے نظیر حکومت معزول کرنے کے بعد آئی جے آئی کی انتخابی مہم دراصل کن ہاتھوں میں تھی، تین عشرے گزرنے کے بعد یہ اب کوئی راز نہیں رہا۔
خدا جنرل حمید گل کو غریق رحمت کرے۔ مرحوم، سیاسی جوڑ توڑ اور مالی کشیدہ کاری کے علاوہ پرفریب سیاسی بیانیہ مرتب کرنے میں بھی ید طولیٰ رکھتے تھے۔ بے نظیر کا عورت ہونا تو مذہب پسند عناصر کے لیے ایک چلتا ہوا سکہ تھا۔ آئی جے آئی کے ترکش میں مہلک ترین ہتھیار بے نظیر کو امریکا نواز ثابت کرنا تھا۔ اس کے لیے ”ہنود و یہود لابی" کی اصطلاح استعمال کی گئی اور اس کے ثبوت میں ایک خط دریافت کیا گیا جو مبینہ طور پر بے نظیر بھٹو نے امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے خارجہ امور کے ایک اہلکار پیٹر گلبرایتھ (Peter Galbraith) کے نام 24 ستمبر 1990ء کو تحریر کیا تھا۔ گلبرایتھ زمانہ طالب علمی سے بے نظیر کے قریبی دوست تھے۔ جعل سازی کے اس شاہکار خط میں دیگر قابل اعتراض نکات کے علاوہ بے نظیر نے مبینہ طور پر مکتوب الیہ سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ وہ بھارتی وزیر اعظم وی پی سنگھ پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے پاک بھارت سرحدی جھڑپوں شروع کروائیں تاکہ پاک فوج (توجہ بٹنے کے باعث) بے نظیر کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے۔ یہ ایک دو دھاری وار تھا تاکہ بے نظیر پر بھارت نوازی کا الزام بھی جَڑا جا سکے۔ اس مفروضہ خط کو بنیاد بنا کر سرکاری اخبارات میں مضامین لکھوائے گئے۔
واشنگٹن کے نیشنل ڈیموکریٹک انسٹیٹیوٹ نے انتخابات کا جائزہ لینے کے لیے ایک وفد پاکستان بھیجا تھا۔ اس وفد نے The October 1990 Elections in Pakistan کے عنوان سے جو رپورٹ مرتب کی اس کے ضمیمہ نمبر 14 میں اس جعلی خط کا عکس موجود ہے۔ 2011ء کے میموگیٹ سکینڈل کی مفروضہ خط و کتابت تو ابھی کل کی بات ہے۔ آصف علی زرداری دعویٰ کرتے ہیں کہ جنرل شجاع پاشا نے یہ کہتے ہوئے ان سے معافی طلب کی تھی کہ وہ جنرل کیانی کا حکم ماننے پر مجبور تھے۔ بہرصورت فروری 2019ء میں عدالت عظمیٰ نے یہ ”دفتر بے معنی" لپیٹ دیا۔
قصہ یہ ہے کہ اسلام آباد سے بیجنگ کا فاصلہ 3881 کلومیٹر ہے جب کہ واشنگٹن 11367 کلومیٹر دور ہے۔ ہمیں شمال میں اپنے دیو قامت ہمسائے اور اس کی بڑھتی ہوئی معاشی قوت سے مفر نہیں۔ سی پیک ہی نہیں، ہمارے سیاسی اور سفارتی مفادات بھی چین سے وابستہ ہیں۔ دوسری طرف امریکا آنے والے بہت سے برسوں تک سپر پاور رہے گا جس کا معاشی، سیاسی اور تیکنیکی تعاون ہمارے استحکام اور ترقی کے لئے ناگزیر ہے۔ امریکا سے ہمارے شکوے پرانے ہیں مگر مارچ 1988ء میں جنیوا معاہدے کے بعد سے پاکستان میں مقتدر ریاستی قوتوں اور مذہبی عناصر نے کوتاہ بیں داخلی مفادات کے لیے امریکا مخالف بیانیے کو دانستہ مضبوط کیا ہے۔
عمران خان اسی رجحان سے فائدہ اٹھا کر امریکا دشمنی کی مہمل گردان کرتے ہوئے اندرون ملک اپنی سیاسی بقا کا سامان کرنا چاہتے ہیں۔ دراصل وہ ملک کی طاقتور مقتدرہ سے ٹکراؤ کے متحمل نہیں ہو سکتے چنانچہ امریکہ پر اپنی سیاسی مشکلات کا الزام دھرنے کو ایک آسان لائحہ عمل سمجھتے ہیں۔ تاہم یہ ایک خطرناک راستہ ہے۔ گزشتہ ایک صدی سے امریکا کو دنیا کے ہر ملک کا ”ہمسایہ" سمجھا جاتا رہا ہے۔ آج کی دنیا میں اگرچہ طاقت کے متعدد متوازی مراکز پیدا ہو رہے ہیں لیکن پاکستان اپنی کمزور معیشت اور سیاسی عدم استحکام کے باعث طاقت کے متبادل مراکز سے فائدہ اٹھانے سے قاصر ہے۔ امریکہ یا وسیع تر معنوں میں مغربی دنیا سے مخاصمت کی فضا پاکستان کے معاشی اور انتظامی مفادات ہی کو نقصان نہیں پہنچائے گی بلکہ دہشت گردی کے دہانے پر واقع پاکستان میں مذہبی تفرقے، لسانی انتشار اور طبقاتی منافرت کا دروازہ بھی کھل جائے گا۔ آج کے پاکستان میں سوال یہ نہیں کہ ”چین کتنی دور ہے؟"۔ دراصل پاکستان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ امریکا کتنا نزدیک ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔