امریکا کی سنوڈن پر تشدد نہ کرنے کی یقین دہانی
27 جولائی 201330 سالہ سابق امریکی انٹیلیجنس کنٹریکٹر ایڈورڈ سنوڈن گزشتہ ایک ماہ سے بھی زائد عرصے سے ماسکو ایئرپورٹ کے ٹرانزٹ ایریا میں مقیم ہے۔ واشنگٹن حکومت تب سے اس کی حوالگی کا مطالبہ کر رہی ہے تاہم روس نے اب تک ایسا کرنے سے انکار کر رکھا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق متنازعہ امریکی جاسوس پروگرام ’پرزم‘ کا پردہ فاش کرنے والے سنوڈن کو روس ہی میں عارضی پناہ دینے کے معاملے پر روسی حکام غور کر رہے ہیں۔ واشنگٹن میں جمعے کے روز امریکی حکام نے ایک خط جاری کیا جو 23 جولائی کو روسی حکام کے نام لکھا گیا تھا۔
امریکی اٹارنی جنرل کی جانب سے لکھے گئے اس خط میں ان خدشات کو غلط قرار دیا گیا ہے، جن کے مطابق سنوڈن کے ساتھ امریکا میں سخت رویہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔ خط میں لکھا گیا ہے، ’’جناب سنوڈن نے روس میں عارضی پناہ کی درخواست اس بنیاد پر دی ہے کہ اگر وہ امریکا لوٹا تو اس پر تشدد کیا جائے گا اور اسے موت کی سزا کا سامنا ہوسکتا ہے، یہ دعوے سراسر بے بنیاد ہیں۔‘‘
روسی صدر کی رہائش گاہ کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے بتایا کہ سنوڈن کے معاملے پر روسی خفیہ ایجنسی FSB اور امریکی خفیہ ایجنسی FBI کے درمیان بات چیت ہورہی ہے۔ روسی صدر ولادی میر پوٹن نے ایک مرتبہ پھر ’قوی عزم‘ ظاہر کیا ہے کہ حالات جو بھی رُخ اختیار کریں وہ تعلقات (امریکا کے ساتھ) متاثر ہونے نہیں دینا چاہتے۔ ان کے ترجمان نے واضح کیا کہ روسی صدر براہ راست انداز میں سنوڈن کے معاملے کو نہیں دیکھ رہے۔
دیمتری پیسکوف نے دو ٹوک الفاظ میں یہ بھی کہہ دیا روسی حکومت نے، ’’ کسی کو حوالے نہیں کیا، نہ کر رہی ہے اور نہ کرے گی۔‘‘ یاد رہے کہ روسی صدر پوٹن جو روسی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے سابق اہلکار رہے ہیں کہہ چکے ہیں کہ سنوڈن کو محض اس صورت میں سیاسی پناہ دی جاسکتی ہے جب وہ ایسے اعمال سے گریز کرے جن سے امریکا کا نقصان ہوسکتا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی انٹیلیجنس ذرائع نے تصدیق کر دی ہے کہ روسی ایجنسی FSB کے ساتھ سنوڈن کے معاملے پر رابطہ کاری جاری ہے۔ انٹیلیجنس امور کے ایک روسی ماہر آندرے سولڈاٹوف کے مطابق امریکی حکومت شاید اب یہ سمجھ چکی ہے کہ سنوڈن ان کے ہاتھ نہیں لگے گا اسی لیے وہ اب اپنی عزت قائم رکھنا چاہتی ہے اور سنوڈن کو مزید راز افشا کرنے سے روکنا چاہتی ہے۔
سنوڈن کے حامیوں کو یہ ڈر ہے کہ ان کا حال بھی سابق امریکی فوجی اہلکار بریڈلی میننگ جیسا ہی ہوسکتا ہے جو وکی لیکس کو خفیہ امریکی سفارتی کیبلز فراہم کے الزام میں زیر حراست ہیں۔ روسی حکام کے نام اپنے خط میں امریکی اٹارنی جنرل نے البتہ واضح کیا ہے کہ ملزمان پر تشدد کرنا امریکا میں ایک غیر قانونی عمل ہے، ’’ اگر سنوڈن امریکا واپس آتا ہے تو اسے ایک سویلین عدالت کے سامنے پیش کیا جائے گا۔‘‘
سنوڈن کو تین لاطینی امریکی ممالک سیاسی پناہ کی پیشکش کر چکے ہیں مگر ان میں سے کسی بھی ملک تک پہنچنے کے لیے سنوڈن کو امریکی فضائی حدود سے گزرنا ہوگا۔ امریکی حکام سنوڈن کا پاسپورٹ بھی منسوخ کرچکے ہیں۔ روئٹرز کے مطابق سنوڈن اس وقت روس کے لیے ’امریکا مخالف پراپیگنڈے‘ کا بھی کام دے رہا ہے۔ ماسکو حکومت واشنگٹن کو طویل عرصے سے یہ الزام دیتی رہی ہے کہ امریکی حکام دیگر ممالک کو انسانی حقوق کی جو تبلیغ کرتی ہے اپنے ہاں اس پر عملدرآمد نہیں کرتے۔