امریکی سینیٹرز کا دورہ پاکستان اور ڈرون حملے
8 جنوری 2010افغانستان میں سی آئی اے کے کئی ایجنٹوں کی ایک بم حملے میں حالیہ ہلاکت کے بعد امریکہ کی طرف سے مشتبہ دہشت گردوں کے خلاف ان ڈرون حملوں میں آنے والی ممکنہ شدت پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں اس وجہ سے پائے جانے والے اختلاف رائے میں اضافہ بھی کر سکتی ہے۔
پاکستان سرکاری طور پر اپنے ریاستی علاقے میں ان امریکی فضائی حملوں پر اعتراض کرتا ہے جو پاکستان کی ریاستی خودمختاری کی خلاف ورزی ہیں۔ اس لئے اسلام آباد کی طرف سے واشنگٹن پر یہ دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ امریکہ یہی ڈرون طیارے پاکستان کو مہیا کرے جو ان کے ذریعے اپنے علاقے میں دہشت گردوں کے خلاف خود کارروائی کرنا چاہتا ہے۔
اس حوالے سے سابق امریکی صدارتی امیدوار اور ریپبلکن سینیٹر جان میک کین نے اسلام آباد میں کہا کہ امریکہ ہر معاملے میں پاکستان سے اتفاق نہیں کرتا ۔ انہوں نے کہا کہ وہ بھی یہ کہہ چکے ہیں اور اوباما انتظامیہ کا بھی یہی مئوقف ہے کہ پاکستانی اور افغان علاقوں میں مشتبہ دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں پر یہ ڈرون حملے ایسا ہتھیار ہیں جو امریکہ اپنے خطرناک دشمن کو شکست دینے کے لئے آئندہ بھی استعمال کرتے رہنے کا تہیہ کئے ہوئے ہے۔
ان ڈرون حملوں کے بارے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اسلام آباد حکومت بغیر پائلٹ کے پرواز کرنے والے اِن طیاروں کے اُن حملوں پر عام طور پر کوئی اعتراض نہیں کرتی جن میں پاکستانی ریاست کے خلاف مسلح جنگ کرنے والے سرکردہ عسکریت پسند مارے جاتے ہیں۔ اس کا ایک بڑا ثبوت تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بیت اللہ محسود کی ایسے ہی ایک ڈرون حملے میں وہ ہلاکت بھی ہے جس کا پاکستان کے حکومتی نمائندوں نے ایک بڑی کامیابی کے طور پر خود اعلان کیا تھا۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: مقبول ملک