ڈرون حملے میں سویلین ہلاکتیں، اقوام متحدہ کی طرف سے مذمت
30 ستمبر 2016خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ ڈرون حملہ بدھ کے روزافغانستان کے صوبے ننگرہار میں کیا گیا تھا۔ پاکستان کی سرحد کے قریب واقع افغان صوبے ننگرہارکو شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ کی آماجگاہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ ڈرون حملہ اس وقت کیا گیا جب گاؤں کے افراد حج سے واپس لوٹنے والے ایک قبائلی بزرگ کے استقبال کے لیے جمع ہوئے تھے۔
جمعرات کے روز افغانستان میں اقوامِ متحدہ کے امدادی مشن نے ایک بیان میں کہا تھا،’’ اقوام متحدہ 15افغان شہریوں کی ہلاکتوں اور 13 افراد کے زخمی ہونے کی مذمت کرتا ہے۔ اس حملے سے متاثر ہونے والوں میں طلبہ، ایک ٹیچر اور چند ایسے خاندانوں کے ارکان شامل تھے جنہیں حکومت کا حامی خیال کیا جاتا تھا۔‘‘
اس سے قبل افغان حکام نے ڈرون حملے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد تین سے تیرہ کے درمیان بتائی تھی۔ دوسری جانب امریکی فوج نے عسکریت پسندوں کے خلاف ڈرون حملے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہریوں کی ہلاکتوں کےحوالے سے تحقیقات جاری ہیں۔ بیان میں مزیدکہا گیا ہے کہ ،’’ امریکی فوج افغان شہریوں کی ہلاکتوں کے الزام کو انتہائی سنجیدگی سے لیتی ہے۔ داعش معصوم افغان مردوں،عورتوں اور بچوں کو قتل کر رہی ہے اور اس کے عسکریت پسند عورتوں کا لباس پہن کرعام شہریوں کے قریب آکر ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔‘‘
اسلامک اسٹیٹ افغانستان میں پہلی مرتبہ سن 2014 کے اواخر میں منظرِعام پر آئی تھی اور اس کے بعد سے یہ تنظیم افغان طالبان کے لیے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔ تاہم گزشتہ چند ماہ میں بڑھتے امریکی ڈرون حملوں اور افغان فوج کی زمینی کاروائیوں سے اسلامک اسٹیٹ کو کافی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
نیٹو افواج کی جانب سے سویلین اور فوجی ہلاکتیں عسکریت پسندوں کے خلاف چلائی جانے والی پندرہ سالہ مہم کا ایک متنازعہ معاملہ ہے جس پر عوام اور حکومت کی جانب سے نیٹو افواج کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ اس ماہ کے آغاز میں افغانستان کے صوبے ارزگان میں ایک امریکی فضائی حملے میں آٹھ افغان پولیس اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔