انتخابی نشانات کا اجراء اور بھٹو وراثت کا جھگڑا
29 مئی 2018ای سی پی نے پاکستان پیپلز پارٹی کو تلوار جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرین کو تیر کا نشان جاری کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ پی پی پی نے تقریبا چالیس برس بعد انتخابی نشان تلوار کے لئے درخواست دی تھی۔ دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی (ورکرز) بھی اسی نشان کی درخواست گزار تھی، جسے مسترد کرد یا گیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی میں پیپلز پارٹی نے تلوار کے نشان پر ہی انیس سو ستر اور انیس سو ستتر کے انتخابات لڑے تھے۔ تاہم بعد میں جنرل ضیاء کے دور میں اس نشان کو انتخابی نشانات کی فہرست سے ہی ختم کر دیا گیا تھا۔
بے نظیر بھٹو کی سابق سیکریٹری اور پی پی پی ورکرز کی رہنما ناہید خان نے اس فیصلے پر اپنا شدید ردِ عمل دیتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’اس سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کا تعصب سامنے آیا ہے۔ یہ انتخابی نشان صرف اس لئے زرداری کی پارٹی کو دیا گیا ہے تاکہ ہم یہ نشان استعمال نہ کر سکیں۔ ہم نے بھی اس انتخابی نشان کو حاصل کرنے کے لئے درخواست دی تھی لیکن ہماری درخواست کو مسترد کردیا گیا ہے۔ یہ ایک غیر آئینی فیصلہ ہے اور ہم اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔‘‘
ناہید خان کے خاوند اورسابق سینیٹر صفدر عباسی نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’پہلے پی پی پی زرداری نے کہا کہ پی پی پی اور پی پی پی پارلیمنٹرین کا اتحاد ہے۔ لہذا اسے تیر کا نشان دیا جائے۔ اس کے بعد انہوں نے پی پی پی کی طرف سے ایک اور درخواست دائر کی ہے کہ انہیں تلوار کا نشان الاٹ کیا جائے۔ یہ صرف ہمیں روکنے کے لئے ایسا کیا گیا ہے۔ ‘‘جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ اب کیا کریں گے تو صفدر عباسی، جو ان دنوں پاکستان پیپلز پارٹی ورکرز کے نام سے سیاست کر رہے ہیں، نے کہا، ’’میں پی پی پی ورکرز کا صدر ہوں۔ ہم نے پی پی پی کی ملیکت کے لئے پہلے ہی سپریم کورٹ میں درخواست دی ہوئی ہے کیونکہ ہمارے ساتھ پارٹی کے بہت سے دیرینہ رہنما اور کارکنان ہیں، جو پی پی پی کو اس کے اصل مالکان کے پاس دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہماری درخواست سپریم کورٹ میں ایک سال سے پڑی ہوئی ہے۔ اب ہم اس کی فوری سماعت کے لئے ایک درخواست دائر کر رہے ہیں تاکہ الیکشن کمیشن کے غیر قانونی اقدامات کو بھی روکا جا سکے اور پی پی پی کو واپس ورکرز کے حوالے کیا جائے، جو اس کے اصل وارث ہیں۔ ہم اس درخواست کی بنیاد پر قانونی جنگ لڑیں گے اور پارٹی بھی واپس لیں گے اور انتخابی نشان بھی۔‘‘
مگر سابق صدر آصف علی زرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی کہتی ہے کہ وہ بھٹو کے اصل وارث ہیں اور یہ انتخابی نشان بھی انہی کو ملنا چاہیے۔ پارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق وزیرِ مملکت برائے صنعت وپیداوار آیت اللہ درانی نے اپنی پارٹی کا دفاع کرتے ہوئے کہا، ’’ہم زیڈ اے بھٹو کے اصل وارث ہیں اور یہ نشان پارٹی کے پاس ہی تھا۔ تو اب ہم نے اسے واپس لے لیا ہے۔ اب یہ پارٹی کی مرکزی قیادت فیصلہ کرے گی کہ وہ اس تلوار کے نشان پر الیکشن لڑتی ہے یا پھر تیر کے نشان پر۔‘‘
لیکن تجزیہ نگار پی پی پی کی اس منطق کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں اور ان کے خیال میں بھی زرداری کی پارٹی نے یہ گیم اس لئے کیا ہے تاکہ پی پی پی بھٹو اور پی پی پی ورکرز تلوار کو انتخابی نشان کے طور پر استعمال نہ کر سکیں۔ پارٹی کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے ڈاکٹر توصیف احمد خان نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’بظاہر یہ ہی لگتا ہے کہ پی پی پی زرداری نے یہ کام اپنے مخالفین کو مات دینے کے لئے کیا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ زرداری کی پارٹی تیر کے نشان پر ہی انتخابات لڑے گی۔ ستر اور ستتر میں ہونے والے انتخابات میں پی پی پی نے اس تلوار کو یہ کہا تھا کہ یہ حضرت علی کی تلوار ہے اور اس کا انتخابی طور پر اسے بہت فائدہ ہوا تھا۔ بعد میں جنرل ضیاء نے اس نشان کو ہی ختم کرا دیا تھا۔ اٹھاسی میں پی پی پی نے اس نشان کا مطالبہ نہیں کیا۔ کیونکہ اس نشان سے بھٹو کی یادیں اور سیاست وابستہ ہے اس لئے پی پی پی زرداری نہیں چاہتی کہ اس کو کوئی اور استعمال کرے۔‘‘
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پاکستان میں خواندگی کی کمی کی وجہ سے انتخابات میں انتخابی نشان بہت اہم ہو جاتے ہیں۔ امکان ہے کہ اس بار بھی ملک کے دیہی علاقوں میں انتخابی نشان انتخابات کے دوران انتہائی اہم ثابت ہوں گے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ترجمان الطاف احمد نے اس تاثر کو رد کیا ہے کہ ان کا ادارہ کسی پارٹی کے ساتھ کوئی تعصب رکھتا ہے۔ انہوں نے اس مسئلے پر رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’آج ہم نے انتخابی نشانات کے حوالے سے جو تنازعات تھے، ان کا فیصلہ کر دیا ہے۔ پی پی پی کو تلوار کو مل گئی ہے جب کہ دوسری جماعتوں نے بھی اس نشان کے لئے درخواست دی تھی۔ اسی طرح نیشنل پارٹی کو آری کا نشان دیا گیا ہے۔ ابھی صرف تنازعات کا فیصلہ ہوا ہے۔ انتخابی نشانات کی فہرست کچھ روز میں جاری کی جائے گی۔ بڑی قومی جماعتوں جیسے کہ نون لیگ، پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے نشانات وہی رہیں گے کیونکہ ان نشانات کو کسی اور جماعت نے نہیں مانگا تھا اور ان کے حوالے سے کوئی تنازعہ نہیں تھا۔‘‘