’انتہا پسندانہ مفروضات کا خاتمہ ضروری ہے‘
1 اپریل 2016سعودی عرب اور امریکا نے پاکستانی جنگجو گروہ لشکر طیبہ کو نشانہ بناتے ہوئے مشترکہ طور پر تازہ پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مبصرین نے اس اقدام کو اہم قرار دیتے ہوئے اس مسئلے کو جڑ سے اکھاڑنے پر زور دیا ہے۔ امریکی وزارت مالیات کے مطابق لشکر طیبہ سے وابستگی کی وجہ سے چار افراد اور دو تنظیموں کو پابندیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے اس جنگجو گروہ کو مالی طور پر نقصان پہنچانے کی خاطر یہ تازہ اقدام کیا گیا ہے۔
پاکستان کے معروف تجزیہ نگار اور صحافی وجاہت مسعود نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی گروہ پر عائد کی جانے والی عالمی پابندیوں کے فوائد کچھ زیادہ نہیں ہوتے بلکہ اس کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ حکومتوں کو احساس دلایا جائے کہ دہشت گرد گروہوں یا انتہا پسندوں کے بارے میں عالمی رائے کیا ہے تاکہ اس تناظر میں ریاستیں اور حکومتیں اپنے طور پر ان کے خلاف اقدامات کرنے پر مجبور ہو سکیں۔
وجاہت مسعود کے بقول پاکستان میں گزشتہ کچھ سالوں میں بالخصوص عوامی سطح پر مذہبی جماعتوں اور گروہوں کی پسندیدگی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تاہم ابھی کچھ ریاستی عناصر میں انتہا پسندی کے جراثیم موجود ہیں، جن کو ختم کیے بغیر مطلوبہ اہداف کا حصول مشکل ہو گا۔
پاکستانی شہر لاہور کی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی اور LUMS یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر، مصنف اور تجزیہ نگار اشتیاق احمد کا بھی کہنا ہے کہ انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے بہت زیادہ فعال ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کا ایجنڈا تباہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمی شعبے میں اصلاحات ضروری ہیں کیونکہ نفرت آمیز خیالات کے پرچار اور جنگوں کی عظمت بیان کرنے سے معاملات مزید خراب ہو جائیں گے۔
پاکستان میں لشکر طیبہ کے علاوہ جماعت الدعوۃ اور دیگر کئی ایسی تنظیموں کو کالعدم قرار دیا جا چکا ہے، جو انتہا پسندی پر مبنی خیالات کا پرچار کرتی ہیں۔ حکومت نے حالیہ عرصے میں ایسی جماعتوں اور ان کے حامیوں کے خلاف ایکشن بھی لیا ہے۔ بالخصوص ممتاز قادری کی سزائے موت پر عملدرآمد کو انتہا پسندی کے خاتمے کی ایک اہم کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔ وجاہت مسعود کے مطابق انتہا پسندانہ عناصر کے لیے یہ ایک کھلا پیغام ہے۔
وجاہت مسعود کا اصرار ہے کہ حکومت پاکستان کو سب سے پہلے ان مفروضات کو ترک کرنا ہو گا، جو انتہا پسندی اور دہشت گردی کی طرف مائل کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے پاکستان میں ابھی صورتحال واضح نہیں ہے بلکہ دیکھا جائے تو یہ معاملہ ابھی تاریکی میں ہی ہے۔
اشتیاق احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستانی فوج ابھی تک اس بارے میں فیصلہ نہیں کر سکی ہے کہ ’ماضی کے نام نہاد مجاہدین کیا اب تک ملک کا سرمایا ہیں یا وہ ایک ذمہ داری بن چکے ہیں‘۔ انہوں نے کہا کہ یہ صورتحال حکومتی اہلکاروں کے لیے ایک مخمصہ بنی ہوئی ہے۔
اشتیاق احمد کا اصرار ہے کہ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومت کو فوری اقدامات کرنا ہوں گے کیونکہ پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انتہا پسندوں کو کھلا چھوڑنے سے ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ سکتا ہے۔ انہوں نے البتہ کہا کہ حکومت نے کچھ مزاحمت دکھانا شروع کی ہے اور ملکی فوج اور سول حکومت میں ایک تبدیلی نمایاں ہے کہ اب اس صورتحال کو مزید برداشت نہیں کیا جا سکتا۔