اندرون ملک مہاجر بننے والے قبائلیوں کو موسم سرما کی مشکلات کا سامنا
11 دسمبر 2013پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کالعدم عسکریت پسند تنظیوں اور سکیورٹی فورسز کے آئے دن آپریشن کی وجہ سے دس لاکھ سے زیادہ لوگ اپنے ہی ملک میں مہاجر بن چکے ہیں ۔ بے گھر ہونیوالے قبائلیوں میں محسود، وزیر ،آفریدی، اورکزئی ، موہمند، باجوڑ اور کرم کے لوگ شامل ہیں ۔ یہ لاکھوں افراد آج بھی خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں قائم پناہ گزین کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گذار رہے ہیں۔ خیمہ بستیوں میں رہائش پذیر یہ لوگ جہاں آجکل شدید سردی کا سامنا کرر ہے ہیں وہاں انکے بچے غذائی قلت کی وجہ سے متعدد بیماریوں میں مبتلاء ہیں ۔
وفاق کے قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت مختلف کیمپوں میں ایک لاکھ ستر ہزار سے زائد قبائلی خاندان رہائش پذیر ہیں ۔ پشاور سے کچھ فاصلے پر واقع جلوزئی مہاجر کیمپ میں سب سے زیادہ خیبر ایجنسی سے نقل مکانی کرنے والے تقریبا 73 ہزار خاندان رہائش پذیر ہیں جبکہ دوسری بڑی تعداد وزیرستان سے تعلق رکھنے والوں کی ہے ۔ ان کیمپوں میں جہاں اشیاء خورد ونوش کی کمی ہے وہاں دیگر بنیادی سہولیات بھی ناپید ہیں ۔ جلوزئی کیمپ میں رہائش پذیر اسلام الدین کا کہناہے ”اس کیمپ میں بہت سارے مسائل ہیں یہاں ٹینٹ پرانے ہیں جس میں گرمی کے دوران شدید گرمی اور سردی کے دوران شدید سردی ہوتی ہے بارش میں اس میں پانی آتا ہے انکا مزید کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے انہیں کوئی امداد نہیں ملتی جبکہ عالمی ادارے انہیں امداد دیتے ہیں لیکن اس میں بھی یہاں کی انتظامیہ خرد برد کرتی ہے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ کئی خاندان ایسے ہیں جن کا اندراج بھی نہیں کیا گیا اور وہ کرنا بھی نہیں چاہتے وہ لوگ یہاں کیمپوں میں اپنے رشتہ داروں کے ہاں ٹہرے ہیں “۔
لیکن اسکے برعکس گورنر خیبر پختونخوا شوکت اللہ خان کا کہنا ہے کہ کئی قبائلی علاقوں میں حالات بہتری کی جانب گامزن ہیں اور وہاں سے نقل مکانی کرنے والے واپس جارہے ہیں ”فاٹا میں ہمیشہ سے سیکورٹی کے انتظامات بھی ہیں وہاں علاقائی ذمہ داری کے تحت لوگ اپنی سکیورٹی کےلیے کام بھی کرتے ہیں ۔ وہاں سکیورٹی انتظامات بھی بہتر ہیں آرمی کے ساتھ وہاں کی اپنی سکیورٹی ایجنسیاں بھی ہیں فاٹا کے اکثر علاقوں میں جاتا رہتا ہوں حال ہی میں تیراہ (خیبر ایجنسی )کا دورہ کیا ہے وہاں سے نقل مکانی کرنے والوں کو واپس بیھجنا شروع کردیا گیا ہے “۔
قبائلی علاقوں سے منتخب ہونیوالے ارکان پارلیمنٹ بھی اس مسلئے کو حکومتی سطح پر اٹھانے میں ناکام رہے ہیں انکا کہنا ہے کہ نواز شریف حکومت کا ساتھ دینے کیلئے انکے شرائط میں قبائلی علاقون میں قیام امن کیلئے موثر اقدامات اٹھانا بھی شامل ہے دوسری جانب قومی اسمبلی کی سابق رکن بشریٰ گوہر کا کہنا ہے کہ انکی معلومات کے مطابق قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد پندرہ لاکھ سے زیادہ ہے اور دنیا بھر میں بے گھر ہونیوالوں کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے ۔ قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں میں زیادہ تر لوگوں نے پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں میں کرائے پر گھر حاصل کئے ہیں لاکھوں کی تعداد میں آنے والے ان افراد کی وجہ سے شہر کے انفراسٹرکچر پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں جبکہ امن و امان کی صورتحال پر قابو پانے میں بھی حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
صوبائی حکومت ان مسائل سے کسطرح نمٹ رہی ہے جب اس حوالے سے ڈوئچے ویلے نے وزیر اعلیٰ کے ترجمان شیراز پراچہ سے بات کی تو انکا کہنا تھا”جو قبائلی مہاجر بن کر خیبر پختوا میں آئے ہیں وہ ہمارے بھائی ہیں وہ پختون ہیں اور یہ انکا اپنا علاقہ ہے یہ لوگ مظلوم ہیں صوبائی حکومت سے جتنا بھی ہوسکتا ہے انکے ساتھ تعاون کررہی ہے نہ ہم انکو بوجھ سمجھتے ہیں اور نہ ہی ہمیں انکے یہاں آنے پر کوئی اعتراض ہے تاہم انکا مزید کہنا تھا کہ قبائلی علاقے وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے وہاں قیام امن کی ذمہ داری بھی وفاق کا ہے صوبائی حکومت وفاق کو وہاں قیام امن میں مکمل سپورٹ کرتی ہے اور ان علاقوں میں قانون سازی کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومت کو ملکر لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا “ چند روز قبل عالمی اداروں کی تعاون سے ان مہاجرین کی واپسی کا سلسلہ شروع کردیا گیا جس میں 18ہزار خاندان خیبر ایجنسی کے علاقہ تیراہ واپس گئے ہیں تاہم کئی ماہ کی جنگ کی وجہ سے انکے گھر اور کاروبار تباہ ہوچکے ہیں جسکی وجہ سے انہیں بے پناہ مسائل کا سامنا ہے۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں پہلے سے 17ملین سے زیادہ افغان پنا ہ گزین رہائش پذیر ہیں جبکہ قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس نے صوبائی حکومت کی مشکلات میں بھی اضافہ کردیا ہے۔