1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انسدادِ دہشت گردی کے لیے کل جماعتی کانفرنس

شکور رحیم9 ستمبر 2013

پاکستان کے دارالحکومت میں دہشت گردی و انتہا پسندی کے مسئلے سے نمٹنے کےلئے منعقد کی گئی کل جماعتی کانفرنس نے قیام امن کے لئے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/19eHF
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

وزیرِ اعظم نواز شریف کی صدارت میں کل جماعتی کا نفرنس پیر کے روز اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں ملکی پارلیمان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں اور اعلی فوجی قیادت نے شرکت کی۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ظہیرالاسلام نے کانفرنس کے شرکا ء کو علاقا ئی اور ملکی سلامتی کی صرتحال پر بریفنگ دی۔

کل جماعتی کانفرنس میں پیپلز پارٹی کے مخدوم امین فہیم اور خورشید شاہ، پی ٹی آئی کے عمران خان، ایم کیو ایم کے فاروق ستار، ، جمعیت علمائے اسلام ( ف) کے مولانا فضل الرحمان،جماعتِ اسلامی کے لیاقت بلوچ اور میاں اسلم، پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی، اے این پی کے حاجی عدیل ، بی این پی کے اختر مینگل، پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے پیرپگاڑا نے شرکت کی۔

Pakistan Ministerpräsident Nawaz Sharif mit Militär
وزیراعظم نواز شریف اور فوجی افسرانتصویر: Reuters

کانفرنس مین ایک متفقہ قرار داد کی بھی منظوری گئی جسے بعد میں مشترکہ اعلامیہ جاری کہا گیا۔ اعلامیے میں دہشت گردی کے خاتمے کے بارے میں سابقہ کل جماعتی کانفرنسوں اور پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں منظور کی گئی قرار دادوں کا حوالہ دیتے ہوئے قیام امن کے لئے بات چیت کو اولین ترجیح قرار دیا گیا ہے۔ اعلامیے میں امریکی ڈرون حملوں پر تشویش کا اظہار کرتے وفاقی حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ ڈرون حملوں کے معاملے کو اقوام متحدہ میں اٹھانے ہر غور کرے کیونکہ یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہیں۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی کا فیصلہ قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے کیا جائے اوراس بارے میں امریکہ یا کسی اور ملک کی رہنمائی نہیں لی جائے گی۔

مشترکہ اعلامیے میں وزیر اعلی بلوچستان کو اندرون وبیرون ملک ناراض بلوچوں کے ساتھ مذاکرات کر کے انہیں واپس قومی دھارے میں لانے کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔ اسی اعلامیے میں افغانستان میں جاری امن عمل کی حمایت کرتے ہوئے حکومت پاکستان پر زور دیا گیا ہے کہ وہ افغانستان میں امن کے لئے ہر ممکن تعاون کرے۔

Imran Khan PTI Pakistan
عمران خانتصویر: Reuters

کانفرنس کے اختتام کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ نے کہا کہ قومی قیادت نے اتفاق رائے سے مشترکہ اعلامیے پر دستخط کیے ہیں اور اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ اس معاملے کو کس طرح لیکر آگے بڑھتی ہے۔ لیاقت بلوچ نے کہا کہ وہ لوگ جو قانونی اور آئینی دائرہ کار میں آ کر بات کرنے کے لئے تیار ہیں، پہلے مرحلے میں ان سے بات کی جائے ۔ فوجی آپریشن نہیں ڈائیلاگ کے ذریعے مسئلے کوحل کرنا چاہیے۔

وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کانفرنس سے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی اہم ترین معاملات ہیں اور ان پر قابو پانے کے لئے پہلے بھی سرکاری اور غیر سرکاری کانفرنسیں منعقد ہوچکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کی گرفت میں ہے اور مسائل گھمبیر ہوتے جارہے ہیں۔ نواز شریف نے کہا کہ اب تک 40 ہزار سے زائد افراد دہشت گردی کی جنگ میں اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹے ہیں اور اگر اس مسئلے کا حل نہ نکالا گیا تو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے کہا کہ:

"پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کو اگر یہ مشکلات درپیش ہیں تو پھر یقینا اس کا نقصان ہم سب کو پہنچے گا ۔ قوم کو تو پہنچے گا ہی ہم بھی کوئی فائدے میں نہیں رہیں گے۔ یہ سب کے لئے گھاٹے کا سودا ہو گا تو اس لئے میرا یہ نظریہ ہے کہ ہم سب کو اس ملک میں ایک نئی صبح کا آغاز کرنا ہو گا"۔

دوسری جانب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماضی قریب میں بھی دہشت گردی کے موضوع پر کل جماعتی کانفرنسیں منعقد کی جاچکی ہیں جن کا نتیجہ صرف زبانی جمع خرچ تک ہی رہا ہے۔ تاہم تجزیہ کار مشرف زیدی کا کہنا ہے کہ موجودہ اے پی سی میں فوجی قیادت کی شرکت منفرد بات تھی۔

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: عابد حسین