1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اور کیا چاہیے ریپ کرنے والوں کو؟

11 فروری 2023

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے سیکٹر ایف نائن میں 460 ایکڑ پر پھیلا ہوا پارک 1992 سے عوام کے لیے کھلا ہوا ہے۔ اس پارک میں وہ سب کچھ ہے جو شہریوں کے لیے ہونا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/4NMLn
News Blogger Wusat Ullah Khan
تصویر: privat

ایک کونے میں ایک انٹرنیشنل فوڈ چین کی عمارت، جوگنگ ٹریک، بچوں کے کھیلنے کی جگہ اور جھولے، سستانے کے لیے بینچ، نمائشوں کے لیے مختص جگہ، پارک کے اردگرد آہنی حفاظتی جنگلا، آنے جانے والے دروازوں پر واجبی سیکورٹی، پارک کی دیکھ بھال کے لیے سی ڈی اے کا عملہ، چاروں جانب مصروف سڑکیں، پاک فضائیہ کا اسپتال اور یونیورسٹی پارک کے اندر روشنی کا انتظام وغیرہ وغیرہ۔

شام ڈھلے اس پارک میں بہت سے کنبے اور جوڑے آتے ہیں۔ ان کے سبب پارک کے ایک چوتھائی حصے میں چہل پہل رہتی ہے۔

ایسے میں اس پارک میں پہلا ریپ 2018 میں ہوا۔ ہا ہا کار مچی۔ اتنے وسیع و عریض رقبے کی اپنی سیکورٹی ایجنسی بنانے کا مطالبہ ہوا۔ روشنی کا انتظام بہتر بنانے کا مطالبہ ہوا۔ نگرانی کے لیے پارک میں معیاری کیمرے لگانے کا مطالبہ ہوا۔

کچھ عرصے تک بچے اور خواتین شام ڈھلے یہاں آنے سے ڈرتے بھی رہے اور پھر زندگی رفتہ رفتہ پرانے ڈھرے پر آ گئی۔ احتجاج اور مطالبات کرنے والے بھی مصروف ہو گئے اور جن سے مطالبات کیے گئے، وہ بھی اپنی ذمہ داریاں حسبِ معمول بھول بھال گئے۔

پچھلے ہفتے پھر یہی ایف نائن پارک ٹی وی چینلوں سے لے کر قومی اسمبلی کے ایوان تک چھا گیا۔

ایک خاتون جو اپنے ایک دفتری ساتھی کے ہمراہ اس پارک میں سینکڑوں دیگر شہریوں کی طرح موجود تھی۔ ان دونوں کو دو مسلح افراد دیگر لوگوں کے سامنے سے ہنکال کے نسبتاً ویران گوشے میں لے گئے۔

دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کیا اور پھر اس خاتون کو ریپ کیا گیا۔ خاتون چیخی چلائی بھی مگر یا تو کسی نے آواز نہیں سنی یا پھر یہ ظاہر کیا کہ آواز نہیں سنی۔

البتہ اس خاتون میں کم ازکم اتنی جرات ضرور تھی کہ اس نے وقوعے کی رپورٹ تھانے میں درج کرائی اور جو جو اس کے ساتھ بیتی وہ سب لکھوایا۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ دونوں ریپسٹ اتنے نڈر تھے کہ خاتون کے شور مچانے اور دیگر لوگوں کی موجودگی سے بھی نہیں گھبرائے، بلکہ انہوں نے  نہایت اطمینان سے کہا کہ اگر وہ شور مچانے سے باز نہ آئی تو پانچ چھ اور لوگوں کو ریپ کے لیے بلا لیا جائے گا۔

اس کے کپڑے دور پھینک دیے گئے تاکہ وہ بھاگ نہ سکے، اور پھر اسے ایک ہزار روپے کا نوٹ دے کر کپڑے واپس کرتے ہوئے کہا گیا کہ آئندہ یہاں کا رخ نہ کرنا۔

پولیس نے وہی کیا جو کیا جاتا ہے۔ ایک ملزم کا خاکہ بنا کے مشتہر کر دیا۔ دوسرے کی تلاش جاری ہے۔ کسی نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ چار برس پہلے جب اسی پارک میں پہلا ریپ ہوا تھا اس کے بعد سے اس جگہ کو عام شہریوں بالخصوص خواتین اور بچوں کے لیے محفوظ بنانے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے۔ اور اس پارک کی سیکورٹی کی بنیادی ذمہ داری پولیس کی ہے یا کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی؟

واردات کے تین دن بعد الیکٹرونک میڈیا اتھارٹی (پیمرا)  نے ذرائع ابلاغ پر پابندی لگا دی کہ وہ ایف نائن پارک ریپ کیس کی کوریج نہیں کر سکتے۔ نہ ہی اس بابت کوئی تبصرہ برداشت کیا جائے گا۔ جس نے یہ حکم نہ مانا اس چینل کا لائسنس معطل کر دیا جائے گا۔

وجہ اس پابندی کی یہ بتائی گئی کہ چند چینلز نے ریپ متاثرہ کا نام نشر کر کے پیمرا ضوابط کی خلاف ورزی کی ہے۔

بجائے یہ کہ ان دو تین چینلز کے خلاف تادیبی کاروائی کی جاتی، اس واقعہ کو ہی بلیک آؤٹ کرنے کا حکم صادر ہو گیا۔ اگر یہ اقدام درست ہے تو پھر اسی منطق کی روشنی میں ایف نائن پارک سمیت تمام پارکوں کو بھی تالا لگا دینا چاہیے تاکہ نہ کوئی یہاں کا رخ کرے اور نہ ہی ریپ ہو۔

اس طرزِ عمل سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ ریاست اور اس کے ادارے لا اینڈ آرڈر کے بحران سے موثر طور پر نمٹنے کی کتنی خواہش ا ور صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور ان کے نزدیک شہریوں کا کھلی فضا میں سانس لینے کا حق کتنا اہم ہے۔

جتنی جرات اور اعتماد کا مظاہرہ سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں ایف نائن پارک کے دو مسلح ریپسٹس نے کیا، لگ بھگ اتنی ہی جرات کا مظاہرہ کراچی سے لاہور جانے والی ایک مشہور ٹرانسپورٹ کمپنی کی مسافر بس کے سیکورٹی گارڈ اور ڈرائیور نے کیا۔

دونوں نے پنجاب میں میلسی کے بس ٹرمینل پر بس خالی کروائی اور اپنی ہی ساتھی خاتون ہوسٹس کو بس کے دروازے بند کر کے ریپ کر دیا۔ بسوں میں ریپ کا یہ کوئی پہلا یا آخری واقعہ نہیں۔

گزشتہ برس لاہور سے کراچی جانے والی ایک ٹرین میں ایک خاتون مسافر ریلوے کے تین ملازمین کے ہاتھوں ریپ ہو گئی۔ بعد ازاں خاتون کی شکایت پر ریلوے پولیس نے ان ملازموں کو حراست میں لے لیا۔

پاکستان کو یونہی خواتین کے لیے غیر محفوظ ممالک کی فہرست میں پانچواں درجہ حاصل نہیں۔ تجربہ کار وارداتی جانتے ہیں کہ اس ملک میں ریپ ثابت ہونے اور پھر عبرت ناک سزا ملنے کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے۔

ریپسٹ جانتے ہیں کہ صرف انہی بے وقوفوں کو سزا ملتی ہے جن پر میڈیا کا مسلسل فوکس ہو اور اس فوکس کے سبب ریاستی اداروں کو وقتی بدنامی سے بچنے کے لیے بادلِ نخواستہ تھوڑی بہت پھرتیاں دکھانی پڑیں۔

ریپسٹ جانتے ہیں کہ ستر فیصد کیسز خاندانی عزت اور بدنامی کے خوف سے رپورٹ ہی نہیں ہوں گے۔ اور جن خواتین نے تھانے جا کے پرچہ کٹوانے کی زحمت کی انہیں سب سے پہلے تھانے والوں کی مشکوک و معنی خیز نگاہوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پھر عدالتی کٹہرے میں وکلا کے سوالاتی ہتھیاروں سے ان کی بچی کچھی زخمی انا تار تار ہو گی اور پھر ہر جانب سے اتنا دباؤ ڈالا جائے گا کہ یا تو وہ مجرم کو اللہ کے نام پر معاف کر دیں یا پھر دھمکیوں سے گھبرا کے مقدمہ ہی واپس لے لیں۔ انصاف مل بھی گیا تو بس اتنا ہی ملے گا جتنا مختار مائی کے حصے میں آیا۔

ویسے کسی بھی ریپسٹ کو ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔ جب آخری مجرم بھی وہی ٹھہرے گا جس کا ریپ ہوا ہو۔ اور یہ فردِ جرم کسی عام آدمی کی جانب سے نہیں بلکہ اعلی ترین عہدیداروں کی جانب سے عائد ہوتی ہے۔

کیا یاد نہیں جب مختار مائی کا کیس بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی زینت بنا تھا تو صدر مملکت ( پرویز مشرف ) نے ہی کہا تھا کہ بعض خواتین مغربی ممالک کا ویزا لینے کے لیے بھی ریپ کروا لیتی ہیں۔

جب سوئی میں شازیہ ریپ کیس سامنے آیا تو ایک ملزم کیپٹن حماد کی بے گناہی کی گواہی کسی بھی عدالتی تحقیق سے پہلے کس نے دی؟ جب اکبر بگٹی نے اس بے گناہی کو چیلنج کیا تو بگٹی صاحب کے ساتھ پرویز مشرف نے کیا کیا اور اس کے بعد بلوچستان کے ساتھ کیا ہوا۔

اور خواتین کے پہناوے کو ریپ کی دعوت دینے کا سبب بھی تو ہمارے ہی ایک وزیرِ اعظم عمران خان نے بتایا تھا۔ اگرچہ ان سب معزز رہنماؤں نے دباؤ پڑنے پر اپنے الفاظ واپس لے لیے یا ذرائع ابلاغ کو اپنا بیان توڑنے مروڑنے کا ذمہ دار قرار دیا۔ مگر کیا الفاظ واپس لینے سے خیالات بھی بدل جاتے ہیں؟

نہ صرف ہماری اشرافیہ بلکہ پڑھی لکھی مڈل کلاس کی اکثر خواتین بھی ایک بات پر تو متفق ہیں، ''کیا ضرورت ہے ان عورتوں کو ایسی جگہوں پر جانے کی جہاں وہ محفوظ نہیں۔‘‘

اس ایک جملے میں گورنننس کی تمام غفلتیں دفن ہو جاتی ہیں۔

اور کیا چاہیے ریاست چلانے والوں کو اور رپیسٹس کو؟؟

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔