او آئی سی کا سربراہی اجلاس: عمران خان شرکت کے لیے روانہ
30 مئی 2019اسلامی تعاون تنظیم کا 14واں سربراہی اجلاس آج جمعرات 30 مئی سے سعودی عرب میں شروع ہو رہا ہے۔ اس دو روزہ اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان بھی سعودی عرب روانہ ہو گئے ہیں۔ مکہ میں ہونے والے اس اجلاس کی صدارت سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز کریں گے۔
قریب 50 برس قبل وجود میں آنے والی اس تنظیم کا سربراہی اجلاس ہر تین برس بعد منعقد ہوتا ہے جس میں ان مسائل کا حل اور ایک مشترکہ لائحہ عمل تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو مسلم ممالک کو درپیش ہوں۔
خیال رہے کہ اسلامی تعاون تنظیم کا یہ اجلاس ایک ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب ایران کے معاملے پر صورتحال انتہائی کشیدہ ہے۔ امریکا نے نا معلوم خطرات کے پیش نظر نہ صرف اپنا ایک طیارہ بردار بحری بیڑا خلیج فارس میں تعینات کر رکھا ہے بلکہ اپنے جدید بمبار طیارے بی 52 بھی علاقے میں بھیجے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیڑھ ہزار اضافی امریکی فوجیوں کی تعیناتی کا بھی فیصلہ ہو چکا ہے۔
ایران کو طاقت اور ثابت قدمی سے جواب دیا جائے، سعودی عرب
او آئی سی کے سربراہی اجلاس سے قبل مکہ میں ہی اس تنظیم کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا ہے جس میں سعودی عرب کے وزیرخارجہ نے کہا کہ ان حملوں کا گزشتہ دنوں ہونے والے اُن حملوں کا ’بھرپور طور پر طاقت اور ثابت قدمی‘ سے جواب دیا جائے، جن کا الزام ایران پر عائد کیا جا رہا ہے۔
سعودی وزیر خارجہ ابراهيم العساف کی طرف سے یہ مطالبہ 57 رکنی اسلامی تعاون تنظیم ’آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن‘ کے آج جمعرات 30 مئی کو ہونے والے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے موقع پر سامنے آیا۔ یہ اجلاس او آئی سی کے سربراہی اجلاس سے قبل منعقد ہوا۔ آج جمعرات 30 مئی سے ہی سعودی عرب میں اسلامی تعاون تنظیم سمیت کئی ایک سربراہی اجلاسوں کا آغاز ہو رہا ہے۔
العساف کا کہنا تھا کہ متحدہ عرب امارات کے قریبی سمندری علاقے میں چار تجارتی بحری جہازوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش اور یمن میں سرگرم ایران نواز حوثی ملیشیا کی طرف سے سعودی عرب میں ایک پائپ لائن پر ڈرون حملہ ایسے اقدامات ہیں جن کے بعد خطے کو ’’شدت پسندوں اور دہشت گرد گروپوں کی طرف سے دہشت گردانہ اقدامات کو روکنے کے لیے زیادہ کوشش کی ضرورت ہے۔‘‘ العساف کا مزید کہنا تھا، ’’ہمیں تمام تر طاقت اور ثابت قدمی سے اس کا مقابلہ کرنا چاہیے۔‘‘
خیال رہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک نے تجارتی بحری جہازوں پر حملوں کا الزام ایران پر عائد کیا تھا۔ تاہم ایران کی طرف سے ان حملوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا گیا ہے جو ایک ایسے وقت میں ہوئے جب امریکا اور ایران کے درمیان تعلقات شدید کشیدہ ہیں۔
یہ بات اہم ہے کہ ایران اسلامی تعاون تنظیم کا رکن ہے اور اس کا ایک وفد اس اجلاس میں شریک ہے، تاہم ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف اس اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔
ا ب ا / ک م (اے پی، اے ایف پی)