اُڑتی پتنگ سے بجلی حاصل کرنے کا نیا طریقہ
2 اگست 2010اِس کا طریقہء کار بہت ہی سادہ اور عام فہم ہے اور وہ یہ کہ کسی رسی سے باندھ کر پتنگ اڑائی جائے تو وہ ڈائنمو کے اصول پر بجلی پیدا کر سکتی ہے۔ جتنی تیزی سے ہوا پتنگ کو اوپر لے جائے گی، اُتنی ہی تیزی سے نیچے زمین پر وہ چرخی گھومے گی، جس سے رسی لپٹی ہو گی۔ جب پتنگ ایک مخصوص بلندی پر چلی جائے گی تو انجن کی مدد سے اُسے دوبارہ نیچے لایا جائے گا۔ اگرچہ ایسا کرتے ہوئے بھی بجلی استعمال ہو گی لیکن یہ اُس سے کم ہو گی، جتنی کہ پہلے پتنگ کو ہوا میں اُڑانے سے حاصل ہوئی ہو گی۔ یہ سارا عمل کمپیوٹر کی مدد سے کنٹرول ہو گا۔
پتنگ اُڑا کر یوں بجلی حاصل کرنا ہالینڈ کے شہر ڈیلفٹ کی یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے انسٹی ٹیوٹ ’ایروسپیس فار سسٹین ایبل انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی‘ کے چونسٹھ سالہ سربراہ ووبو اوکلز کا ایک دیرینہ خواب ہے۔ ووبو اوکلز ایک مشہور ماہرِ طبیعیات ہیں اور ایک خلا باز کے طور پر اَسی کے عشرے کے وَسط میں ایک خلائی مشن پر بھی جا چکے ہیں۔ وہ آسمانوں کو توانائی فراہم کرنے والا نیا ذریعہ گردانتے ہیں۔
اوکلز اور اُن کے ساتھی سائنسدان پہلے ہی یہ تجربہ کر چکے ہیں کہ دَس مربع میٹر سائز کی ایک پتنگ کی مدد سے دَس کلو واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے، جس سے دَس گھروں کی بجلی کی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں۔ ان سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ بلندی پر اُڑنے والے اور جینریٹرز کے ساتھ جڑے ہوئے بہت سے پتنگ ایک سو میگا واٹ تک بجلی پیدا کر سکتے ہیں اور یہ اتنی زیادہ بجلی ہے کہ جو ایک لاکھ گھروں کی بجلی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی ہو گی۔ اوکلز کے منصوبوں کے مطابق اِن میں سے ایک ایک پتنگ فٹ بال کے ایک میدان کے برابر سائز کا ہو گا اور ایسے پچاس یا اِس سے بھی زیادہ پتنگ ایک ساتھ یا یکے بعد دیگرے فضا میں ایک ہزار میٹر کی بلندی تک اُڑائے جا سکتے ہیں۔
دُنیا کے اور بہت سے خطوں کے سائنسدان بھی پتنگ استعمال کرتے ہوئے ہوا سے توانائی کے حصول کے لئے مختلف طرح کے منصوبوں پر تحقیق کر رہے ہیں۔ چند ایک محققین کے اندازوں کے مطابق ہوا سے اتنی زیادہ توانائی حاصل کی جا سکتی ہے کہ اُس سے کرہء ارض کی توانائی کی ضروریات ایک سو سے زیادہ مرتبہ پوری کی جا سکتی ہیں۔
اُڑتی پتنگ کی مدد سے بجلی حاصل کرنے کی غرض سے سن 2007ء میں سرچ انجن گوگل کے ایک ذیلی ادارے نے ایک امریکی پتنگ کمپنی ماکانی میں پندرہ ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی۔ اِسی طرح اٹلی کی ایک کمپنی Kitegen ایک ساتھ بہت سے پتنگ اُڑا کرایک گیگا واٹ تک بجلی حاصل کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے اور بجلی کی یہ مقدار اُتنی ہی ہے، جتنی کہ کوئلے سے چلنے والے کسی عام بجلی گھر میں پیدا ہوتی ہے۔
پاکستان کے مقامی اخبارات میں چند روز پہلے شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق ایک پاکستانی نوجوان محمد شکیل عامر نے ایک مربع میٹر سائز کی ایک پتنگ کی مدد سے تین وولٹ بجلی حاصل کرنے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ اِس نوجوان کا تعلق اوکاڑہ کے قریب دیپالپور کے ایک گاؤں شیریں معافی سے بتایا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اِس تجربے پر صرف چھ ہزار روپے لاگت آئی ہے۔
اگرچہ یہ نوجوان اپنے اِس تجربے کو زیادہ بڑے پیمانے پر عملی جامہ پہنانے کے لئے حکومت یا نجی شعبے کے کسی ادارے کی جانب سے مالی وسائل اور معاونت کی اُمید کر رہا ہے لیکن ماضی میں اِس طرح کے تجربات کی جانب متعلقہ محکموں اور تنظیموں کی عدم توجہ کے پیشِ نظر یہ امکان کم ہی ہے کہ اِس نوجوان کا سستی بجلی کے حصول کا یہ منصوبہ آگے بڑھ سکے گا۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: عابد حسین