اِک آگ سے گزرے تو سمندر پار ہوا
21 اکتوبر 2015وہ بنیادی طور پر ایک براعظم سے دوسرے میں پہنچنا چاہتا تھا اور یہ کوشش اس کی زندگی کو بدل کر رکھ سکتی تھی۔ محمد کی سوچیں کسی تیز رفتار ٹرین کی طرح چل رہی تھیں۔ کئی طرح کے خوف اس کے دل کی دھڑکن کے ساتھ دھک دھک کر رہے تھے۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اسے ایسے حالات کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ شامی خانہ جنگی نے چھبیس سالہ محمد کو مجبور کیا کہ وہ پرامن زندگی کی خاطر ایک مشکل اور دشوار گزار راستہ اختیار کرے۔
محمد بخوبی جانتا تھا کہ بحیرہ ایجیئن کو عبور کرنے کی کوشش میں کئی مہاجرین ہلاک ہو چکے ہیں۔ محمد کو معلوم تھا کہ سورج کی شدید تپش، بارش، کیچڑ سے بھرے راستے، کھچا کھچ بھرے ریلوے اسٹیشن اور بسوں کی طویل مسافت، یہ سب مصائب اس کے منتظر ہیں لیکن وہ پھر بھی قائل تھا کہ اسے ہمت نہیں ہارنا تھی۔ وہ مایوسی، تھکن، بے خوابی، خوف، غصے اور اعصاب کو مضمحل کر دینے والے تمام عوامل کو شکست دینا چاہتا تھا۔ دراصل وہ ایک نئی زندگی شروع کرنا چاہتا تھا۔
محمد الحاج کا یورپ کی طرف سفر بھی اسی مہاجرت کا حصہ ہے، جس کے تحت چھ لاکھ مہاجرین یورپ کا رخ کر چکے ہیں۔ یوں یورپ کو دوسری عالمی جنگ کے بعد مہاجرین کے سب سے بڑے بحران کا سامنا بھی ہے۔ یورپی یونین میں مہاجرین کی آباد کاری کے حوالے سے اختلافات اور انتظامی مسائل کی وجہ سے نہ صرف یورپی ممالک کو مشکلات درپیش ہیں بلکہ بلقان کے ممالک میں پھنسے ہزاروں مہاجرین بھی شدید پریشانی اور بے یقینی کا شکار ہو چکے ہیں۔
دیگر کئی مہاجرین کی طرح محمد بھی جنگ سے فرار ہونے کی کوشش میں تھا۔ شامی صوبے حلب کے رہائشی محمد الحاج کی ہجرت کا سفر خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے باقاعدہ طور پر مانیٹر کیا۔ محمد قائل تھا کہ وہ ایک بہتر زندگی کا مستحق ہے۔ ترکی کے ایک مہاجر کیمپ میں زندگی بسر کرتے ہوئے محمد نے اچانک یورپ کا سفر کرنے کی ٹھانی۔ وہ اپنے دیگر ہم وطنوں کی طرح وطن واپسی کا منتظر نہیں تھا۔ اس کے نزدیک شام تباہ ہو چکا ہے اور اب وہ واپس نہیں جائے گا۔ محمد کے بقول، ’’یورپ میں کم ازکم مجھے یہ احساس تو ہو گا کہ میرے حقوق ہیں۔‘‘ ہجرت کے اس طویل سفر میں اس کی منزل جرمنی تھا۔
خدا حافظ! حلب
جب سن 2011 میں صدر بشار الاسد کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوئی تو محمد بھی اس کا حصہ بن گیا تھا۔ تیونس اور مصر کے آمروں کا تختہ الٹ دیے جانے کے بعد محمد اور دیگر شامی باشندے صدر اسد کو بھی جلد ہی اقتدار سے الگ ہوتا دیکھ رہے تھے۔ تاہم سن 2012ء میں یہ پر امن احتجاج خانہ جنگی میں تبدیل ہو گیا۔ شام، جو کبھی تہذیب، ثقافت اور علم و ہنر کا صدر مقام تصور کیا جاتا تھا، تباہی کا مرکز بن گیا۔
شام میں سنی مسلم اقلیت سے تعلق رکھنے والا محمد الحاج جب اکتوبر 2012ء میں پہلی مرتبہ ایسوسی ایٹڈ پریس سے ملا تو وہ حلب کے ایک ہسپتال میں رضا کار کے طور پر کام کر رہا تھا۔ ایک ہائی اسکول سے اپنی تعلیم مکمل کرنے والا محمد توانائی سے بھرپور تھا۔ اس نے اپنے سامنے لوگوں کو مرتے دیکھا، لیکن پھر بھی اس کا حوصلہ پست نہ ہوا۔
شامی خانہ جنگی کے دوران نومبر 2012ء میں اس ہپستال کو بیرل بموں سے نشانہ بنایا گیا۔ اس ہسپتال کی تباہی کے بعد اس کا اسٹاف بھی شام سے ہجرت پر مجبور ہو گیا۔ جنگ شدید ہو چکی تھی، اس وقت چار ملین شامی شہری ترکی، لبنان اور دیگر ہمسایہ ممالک کی طرف فرار ہوئے۔ محمد نے اپنے کنبے کے ساتھ 2014ء میں ترکی میں پناہ لی۔
بہتر زندگی کی خواہش
رواں برس دو ستمبر کو محمد نے ترک شہر کیلس سے یورپ کے لیے رخت سفر باندھا۔ یہ وہی وقت تھا، جب شامی بچہ ایلان کردی بحیرہ ایجیئن میں ڈوب کر ہلاک ہو گیا تھا۔ اس معصوم بچے کی لاش کی تصاویر دنیا بھر میں عام ہو چکی تھیں۔ محمد کی ماں فکر مند تھی کہ کیا اس کا بیٹا اس مشکل سفر میں اپنی منزل پا سکے گا؟ تاہم محمد پرعزم تھا۔ وہ بہتر زندگی کی خاطر تمام تر خطرات مول لینے پر تیار تھا۔ ترکی سے کشتیوں کے ذریعے یورپ جانے کے دوران انسانوں کے اسمگلروں کی کئی کشتیاں غرقاب ہو چکی تھیں۔ لیکن ایسی خبریں بھی محمد کے فیصلے کو نہ بدل سکیں۔
محمد کیلس میں ایک برطانوی غیر سرکاری ادارے کے ساتھ کام کر رہا تھا۔ اس کی تنخواہ بھی اچھی تھی۔ لیکن وہ ترکی کے سرحدی علاقے میں اپنی زندگی ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ پڑھنا چاہتا تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ یونیورسٹی جائے۔ اس نے جرمنی میں پڑھائی کے لیے درخواست جمع کرائی لیکن وہ نامنظور ہو چکی تھی۔ اب اس کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔
محمد نے بھی انسانوں کے اسمگلروں سے رابطہ کیا۔ اس نے یونان جانے کے لیے اسمگلروں کو دو ہزار یورو دیے۔ چار ستمبر کو وہ بس کے ذریعے ازمیر روانہ ہوا۔ اس نے بحیرہ ایجیئن سے یونانی جزیرے لیسبوس پہنچنا تھا۔ محمد کے ساتھ چھ دیگر شامی مہاجرین بھی تھے، جنہوں نے اکٹھا سفر کرنا تھا۔ اسی دن اس ساحلی علاقے سے پانچ مہاجرین کی لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔ تاہم محمد اور اس کے ساتھی موت یا زندگی کے سفر پر جانے کے لیے تیار تھے۔
پانچ ستمبر کی صبح محمد اور اس کے ساتھی یونانی جزیرے لیسبوس کے قریبی ساحلی علاقے پر بخیریت پہنچ گئے۔ سفر کی تمام تکالیف دور ہو چکی تھیں۔ انہوں نے خوشیاں منائیں اور مستقبل کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔
لیسبوس میں طویل انتظار
لیسبوس پہنچ کر محمد کو یہ احساس ہوا کہ سفر تو ابھی شروع ہوا ہے۔ وہاں پہلے ہی مہاجرین کا ایک جم غفیر تھا۔ شامی، عراقی اور افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد آگے بڑھنے کی خواہش مند تھی۔ یہ سبھی شمالی اور مغربی یورپ جانے کے لیے پر تول رہے تھے۔ محمد کے مطابق بیس ہزار سے زائد مہاجرین اس چھوٹے سے سیاحتی جزیرے پر بہت زیادہ معلوم ہو رہے تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ اسی مقام پر ہر مہاجر کی رجسٹریشن ہونا تھی، اس کے کاغذات تیار ہونا تھے اور پھر انہیں باری باری آگے بھیجا جانا تھا۔ تاہم سبھی مہاجرین کی کوشش تھی کہ سب سے پہلے ان کا نمبر آ جائے۔ بغیر رجسٹریشن کے نہ تو کوئی مہاجر بس یا فیری کا ٹکٹ خرید سکتا تھا اور نہ ہی وہ ٹیکسی کر سکتا تھا۔
’حوصلہ نہیں ہارنا‘، محمد اپنے اس موٹو پر قائم تھا لیکن پہلی مرتبہ بے یار و مدگار ہونے کے احساس نے اس کے اعصاب کو شل کر دیا۔ انتظامی مسائل کے علاوہ مہاجرین کے آپس میں جھگڑوں اور آگے بڑھنے کے لالچ نے رجسٹریشن کا عمل مزید سست کر دیا تھا۔ سات ستمبر کو محمد ایک رجسڑیشن دفتر کے باہر ایک طویل لائن میں کھڑا ہو گیا۔ تاہم وہاں بھی کچھ مہاجرین کی ہلڑ بازی کی وجہ سے یونانی حکام نے اس دفتر کو بند کر دیا۔
محمد تھک چکا تھا۔ اسی دوران اسے اطلاع ملی کہ ایک اسٹیڈیم میں رجسٹریشن کا کام شروع ہو چکا ہے۔ ایسی خبریں اکثر افواہیں ہی ہوتی تھیں لیکن محمد نے فیصلہ کیا کہ وہ اس اسٹیڈیم میں ضرور جائے گا۔ 45 منٹ پیدل چلنے کے بعد جب وہ اس مقام پر پہنچا تو وہاں مہاجرین کی ایک بڑی تعداد پہلے سے ہی موجود تھی۔ اس رجسٹریشن دفتر میں یونانی حکام نے اضافی عملہ بلا لیا تھا، اس لیے اندارج کا کام تیزی سے ہو رہا تھا۔
یونان، مقدونیہ اور پھر سربیا
آٹھ گھنٹے کے صبر آزما انتظار کے بعد محمد کو بھی کاغذات مل گئے۔ رات کے ساڑھے تین بجے رجسٹریشن کے بعد محمد نے نو ستمبر یعنی اگلے دن کی ہی فیری ٹکٹ خرید لی۔ اب اس نے صبح اپنی اگلی منزل کی طرف گامزن ہونا تھا۔
جب محمد ایتھنز سے مقدونیہ پہنچا تو وہ کچھ سکون محسوس کر رہا تھا۔ اس نے یونان سے ایک نئی سم خرید لی تھی اور اب وہ ایک مرتبہ پھر اپنے سمارٹ فون کی مدد سے یورپ میں موجود اپنے شامی ساتھیوں کے ساتھ رابطے میں آ گیا تھا۔ وہ کچھ ٹوٹی پھوٹی انگریزی بول لیتا تھا لیکن اسے جرمن زبان سے کوئی شناسائی نہ تھی۔ اس نے جرمنی پہنچنا تھا، اس لیے وہ اس بارے میں بھی فکر مند تھا۔ لیکن جرمنی میں اس کے دوستوں نے اس بتایا تھا کہ ایک مرتبہ وہ وہاں پہنچ جائے تو معاملات ٹھیک ہو جائیں گے۔
سربیا کی سرحد پر نئی تکالیف محمد کی منتظر تھیں۔ وہاں بھی مہاجرین کا ایک ہجوم تھا۔ دیگر مہاجرین کی طرح محمد کو بھی وہاں رجسٹریشن کرانا تھی۔ ہنگری کی طرف سے سفر سے پہلے اسے مستند سفری کاغذات چاہیے تھے۔ وہاں بھی مہاجرین کی بڑی تعداد کی وجہ سے بد انتظامی نمایاں تھی۔ محمد نے وہاں دس گھنٹوں کے طویل انتظار کے بعد رجسڑیشن کرائی۔
سربیا سے ہنگری میں داخل ہونا آسان نہیں تھا۔ محمد کی کوشش تھی کہ وہ حکام کو اپنے فنگر پرنٹس نہ دے۔ دس دن کی طویل مسافت میں وہ ستائیس سو کلو میٹر کا فاصلہ طے کر چکا تھا۔ خطرناک کشتیوں، بسوں، ٹرینوں اور پیدل سفر کرنے کے بعد وہ کیلس سے سربیا پہنچا تھا۔ اب وہ کوئی غلطی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ محمد اور اس کے ساتھیوں نے بارہ ستمبر کی رات چوری چھپے ہنگری فرار ہونے کا پروگرام بنایا۔ محمد کے پاس سمارٹ فون تھا۔ اس فون میں جی پی ایس سہولت بھی تھی، اس لیے وہ سرحدی راستوں کو دیکھ سکتا تھا۔
محمد اور اس کے ساتھیوں نے سکیورٹی گارڈز کو چکمہ دے کر سربیا سے ہنگری داخل ہونے کی کوشش کی۔ اس دوران ہنگری کے سرحدی محافظوں کے سدھائے ہوئے کتوں نے محمد اور اس کے ساتھیوں کو پکڑ لیا۔ اس گروہ میں ایسوسی ایٹڈ پریس کا ایک فوٹوگرافر بھی شامل تھا۔ اس کے بعد ہنگری کے حکام نے محمد اور دیگر مہاجرین کے فنگر پرنٹس لیے تاہم ان کے ساتھ برا سلوک نہ کیا۔
جرمنی کا سفر
محمد جب دیگر مہاجرین کے ساتھ آسٹریا روانہ ہوا تو اس کی تھکن کچھ کم ہو چکی تھی۔ وہ بہت خوش تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اب وہ اپنے خوابوں کے دیس یعنی جرمنی پہنچ جائے گا۔ وہ خوش تھا کہ جرمنی میں آباد ہونے کے بعد وہ ترکی میں اپنے والدین سے ملنے بھی جا سکے گا۔ لیکن کہیں یہ خوف بھی موجود تھا کہ کہیں جرمن پولیس انہیں ایک مرتبہ دوبارہ ہنگری روانہ نہ کر دے۔
محمد کی آخری پریشانی اس وقت دور ہو گئی، جب جرمنی داخل ہونے پر پولیس نے اسے واپس کہیں روانہ نہ کر کے ایک نئی امید دلا دی۔ اسے سب سے پہلے کھانا دیا گیا۔ اسے ایک ایسے شیلٹر ہاؤس پہنچایا گیا، جہاں ضروریات زندگی کی تمام سہولیات موجود تھیں۔ محمد کے مطابق، ’’اس شیلٹر ہاؤس میں موجود تمام سہولیات میری جملہ توقعات کے مطابق ہیں۔ میں جرمنی پہنچ چکا ہوں۔‘‘
سولہ ستمبر کو محمد اپنے ایک پرانے واقف کار ڈاکٹر عثمان کے ساتھ ملنے میں بھی کامیاب ہو گیا۔ یہ ڈاکٹر حلب کے اسی ہسپتال میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھا، جہاں 2012ء میں محمد کام کر چکا تھا۔ ڈاکٹر عثمان نے محمد کو مشورہ دیتے ہوئے کہا، ’’جرمن زبان سیکھو، کام کرو۔ محنت کرو۔ اگر تم حکومتی امداد پر زندگی بسر کرو گے تو جرمن تمہیں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے۔‘‘ محمد پرعزم ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس کے اعتماد میں اضافہ ہو گا اور وہ جرمن معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکے گا۔ محمد چاہتا ہے کہ وہ ایک پرقار اور بااحترام زندگی بسر کرے۔ اس مقصد کے لیے وہ انتھک محنت کرنے پر پوری طرح تیار ہے۔