مہاجرين کا بحران يورپ ميں، اثرات پاکستان ميں بھی
14 اکتوبر 2015اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين UNHCR کی پاکستان ميں قائم شاخ کو سال رواں کے دوران اب تک صرف 33.6 ملين ڈالر کی امداد موصول ہوئی ہے جبکہ سالانہ امداد کا بجٹ 137.7 ملين ڈالر ہے۔ شام، عراق، افغانستان اور چند شمالی افريقی ممالک سے مہاجرين کی ايک بڑی تعداد ميں يورپ آمد کے سبب پاکستان ميں موجود افغان مہاجرين کے ليے امدادی پروگراموں ميں کٹوتی کی جا رہی ہے۔ اس کٹوتی کے نتيجے ميں افغان مہاجرين کے ليے تعليم، نومولود بچوں کے ليے غذا کی فراہمی اور حفظان صحت سے متعلق منصوبے متاثر ہو رہے ہيں۔
پاکستان کے شمال مغربی شہر پشاور کے مضافات ميں واقع کبابياں کيمپ ميں قريب بارہ ہزار افغان مہاجرين بستے ہيں۔ اس کيمپ ميں موجود ايک اسکول کے پرنسپل محمد ضمير نے اپنے طلباء کو کہہ ديا ہے کہ وہ اب گھر بيٹھيں۔ 55 سالہ ضمیر نے بتايا، ’’اس سال موسم گرما کی چھٹيوں کے دوران ہميں اچانک مطلع کيا گيا کہ ہميں فنڈز کی قلت کا سامنا ہے۔ نتيجتاً ہم ساتويں اور آٹھويں جماعت کے طلباء کی تعليمی سرگرمياں معطل کر رہے ہيں۔‘‘ ايک خيمے ميں نيلے رنگ کے يونيفارم ميں ملبوس متعدد طلباء کے سامنے فرش پر بيٹھے محمد ضمير نے کہا کہ امداد ميں کمی سے ہزاروں بچے متاثر ہو سکتے ہيں۔
UNHCR کے مطابق رواں سال کے دوران نصف ملين سے زائد مہاجرين نے يورپ پہنچنے کی کوشش کی اور يہ تعداد دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔ ان ميں افغان مہاجرين کی تعداد اسّی ہزار ہے جو پاکستان ميں پناہ ليے ہوئے افغان مہاجرين کی کُل تعداد کا ايک معمولی حصہ ہی ہیں۔ سن 1980 کی دہائی ميں افغانستان پر سابقہ سويت يونين کی چڑھائی، پھر سويت فورسز کی پسپائی کے بعد خانہ جنگی اور 2001ء ميں سخت گير اسلامی نظريات کی حامل حکومت گرنے کے بعد سے طالبان کے خلاف جاری جنگ کے سبب لاکھوں افغان مہاجرين نے پاکستان کا رخ کيا۔
پاکستان ميں رہنے والے افغان مہاجر محمد امين 1980ء کی دہائی ميں افغانستان پر سابقہ سويت يونين کی چڑھائی کا وقت بہت قريب سے ديکھ چکا ہے۔ وہ کافی برہم ہے۔ امين کا کہنا ہے، ’’اقوام متحدہ کی طرف سے شامی مہاجرين کی مدد کی تو جا رہی ہے، ليکن افغان باشندوں کے بارے ميں کوئی نہيں پوچھتا۔‘‘ اس کے بقول اس کے ملک ميں تو جنگ 35 برس سے جاری ہے۔
عالمی سطح پر اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين UNHCR کو سال رواں 61 فيصد فنڈز کی کمی کا سامنا ہے، جو ادارے کے ليے گزشتہ پندرہ برس ميں سب سے زيادہ کمی ہے۔ امداد ميں کمی کے نتيجے ميں کچھ تلخ اقدامات کرنا پڑے ہيں۔ صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے پاکستان ميں UNHCR کے سربراہ Indrika Ratwatte کہتے ہيں، ’’اگر ايک بچہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ لبنان کے پہاڑی علاقے ميں پہنچا ہو اور سخت سردی کا شکار ہو، تو آپ اسے وہاں ايک خيمہ مہيا کريں گے يا پاکستان ميں مہاجرين کے ليے کسی خيمے کو تبديل کريں گے؟‘‘
نيوز ايجنسی روئٹرز کی پشاور سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ان کٹوتيوں کے نتيجے ميں مزيد مہاجرين يورپ کا رخ کر سکتے ہيں۔