1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

آذربائیجان کی نگورنو کاراباخ میں فوجی کارروائی

19 ستمبر 2023

اس علاقے میں آذر بائیجان اور آرمینیا کے مابین 2020 ء میں جنگ بندی کے باوجود کشیدگی مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکی تھی۔ فریقین ایک دوسرے پر امن کی خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کرتے آئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4WYcO
Aserbaidschan | Beginn von "Anti-Terroreinsätzen" in Berg-Karabach
تصویر: Defense Ministry of Azerbaijan/AP Photo/picture alliance

آذربائیجان نے منگل کے روز کہا ہے کہ اس کی مسلح افواج نےطنگورنو کاراباخ  میں ''مقامی سطح پر انسداد دہشت گردی کی سرگرمیاں‘‘ شروع کی ہیں تاکہ وہاں سے آرمینیائی فوجی دستوں کو غیر مسلح کر کے باہر دھکیلنے کے بعد علاقے میں آئینی نظم کو بحال کیا جا سکے۔

کاراباخ کو بین الاقوامی سطح پر آذربائیجان کے حصے کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہاں ایک بڑی نسلی آرمینیائی آبادی رہائش پذیر ہے۔ 1990ء کی دہائی کے اوائل میں آرمینیا کے ساتھ ایک جنگ کے بعد یہ علاقہ آذربائیجان کےکنٹرول سے نکل گیا تھا۔ آذربائیجان نے 2020 ء میںطآرمینیا کے ساتھ  ایک اور جنگ کے بعد اس علاقے اور اردگرد کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا تھا۔

Nagorno-Karabakh | Rauchwolken in der Nähe von Stepanaker
باکو حکومت کا کہنا ہے کہ وہ نگورنو کارا باخ میں صرف جائز فوجی اہداف کو نشانہ بنا رہی ہےتصویر: Mika Badalyan/TASS/dpa/picture alliance

آذربائیجان کی وزارت دفاع نے ایک بیان میں اپنے علاقوں سے آرمینیا کی مسلح افواج کے انخلاء کو غیر مسلح اور محفوظ بنانے،  ان کے فوجی ڈھانچے کو بے اثر کرنے کے ارادے کا اظہار کیا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اس کارروائی کے دوران صرف جائز فوجی اہداف کو انتہائی درست ہدف بنانے والے ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے نشانہ بنایا جا رہا ہے اور یہ کہ عام شہریوں اور شہری ڈھانچے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس کارروائی سے متعلق علاقے میں موجود روسی امن فوج  کے ساتھ ساتھ یہاں قائم ایک ترک-روسی نگرانی مرکز کو بھی مطلع کر دیا گیا ہے۔

 اس مرکزکا مقصد 2020 ء میں آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان ہوئی جنگ بندی برقرار رکھنے میں مدد کرنا ہے۔

 آرمینیا کا کہنا ہے کہ کاراباخ میں اس کا کوئی فوجی اہلکار نہیں ہے اور اس کی ترجیحات خالصتاً انسانی بنیادوں پر ہیں۔ کاراباخ کا زیادہ تر حصہ آرمینیائی حکام کے زیر کنٹرول ہے جنہیں باکو حکومت طویل عرصے سے ختم کرنے اور غیر مسلح کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔

روبن وردانیان ایک ارب پتی بینکر ہونے کے ساتھ ساتھ  فروری تک کاراباخ کی نسلی آرمینیائی انتظامیہ میں ایک اعلیٰ  عہدے پر فائز تھے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا، "آذربائیجان نے نگورنو کاراباخ کے خلاف بڑے پیمانے پر توپ خانے سے حملہ شروع کیا ہے، جس میں شہریوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔‘‘

آذربائیجان نے اس کارروائی کا اعلان یہ شکایت کرنے کے بعد کیا تھا کہ اس علاقے میں بچھائی گئی بارودی سرنگوں کی وجہ سے دو الگ الگ واقعات میں اس کے چھ شہری مارے گئے ہیں۔

Aserbaidschan | Bergkarabach  - Überwachungsturm "Russian Turkis center"
نگورنو کاراباخ میں 2020 ء کی جنگ بندی برقرار رکھنے کے لیے قائم روس۔ترکی نگرانی مرکز کے تحت قائم ایک مشاہداتی چوکیتصویر: Gavriil Grigorov/TASS/dpa/picture alliance

باکو حکومت ان بارودی سرنگوں کے لیے  ''غیر قانونی آرمینیائی مسلح گروہوں‘‘ کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ علاقے میں کشیدگی بڑھنے کا یہ تازہ واقعہ اس پیش رفت کے ایک دن بعد سامنے آیا ہے، جب کاراباخ کے رہائشیوں کے لیے علاقے میں جانے والی دو سڑکوں پر بیک وقت اشیائے خوردونوش اور ادویات کی ترسیل کی گئی تھی۔

اس اقدام سے بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ آذربائیجان نے گزشتہ چند روز تک آرمینیا کو نگورنو کاراباخ سے ملانے والے لاچین کوریڈور پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی تھیں۔ اس راستے سے علاقے کے مکینوں کے لیے اس بنیاد پر امداد  لے جانے کی اجازت بھی نہیں تھی کہ یہ راستہ مبینہ طور پر اسلحے کی اسمگلنگ کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔

آرمینیا نے کہا تھا کہ باکو کے غیرقانونی اقدامات اس علاقے میں ایک انسانی المیے کا باعث بن رہے ہیں۔ تاہم  آذربائیجان نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔ آرمینیا کی وزارت خارجہ نے پیر کو کہا تھا کہ آذربائیجان کے سفارتی موقف سے ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی قسم کی فوجی کارروائی کے لیے راہ ہموار کر رہا ہے۔

ش ر⁄ ا ا (روئٹرز)

آرمینیا بھی رفتہ رفتہ روس سے دور