1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتآرمینیا

آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جھڑپوں میں درجنوں ہلاک

13 ستمبر 2022

آذربائیجان اور آرمینیا کی فوجیں نگورنو کاراباخ کے علاقے میں ایک دوسرے پر فائرنگ کر رہی ہیں، جس سے 2020 کی جنگ کے بعد کشیدگی میں اضافے کا خدشہ ہے۔ فریقین نے اس اشتعال انگیزی کا الزام ایک دوسرے پر عائد کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4Gl7v
Konflikt Aserbaidschan Armenien | armenische Soldaten
تصویر: ARIS MESSINIS/AFP

آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان پیر کی رات کو پھر سے لڑائی بھڑک اٹھی، جس میں تازہ اطلاعات کے مطابق سرحد پر درجنوں افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ فریقین نے دوجانب کے توپ خانوں سے شدید گولہ باری کی اطلاعات دی ہیں۔

یہ لڑائی آذربائیجان کے اندر واقع نگورنو کاراباخ کے اس علاقے میں شروع ہوئی ہے، جس پر آرمینیائی نسل کے علیحدگی پسندوں نے سن 1991 میں قبضہ کر لیا تھا اور پھر اسے ایک علیحدہ جمہوری ریاست ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد اس علاقے کا نام آرت ساخ پڑ گیا تھا۔

آرمینیا اور آذربائیجان میں جنگ بندی معاہدہ ہو گیا

منگل کی صبح سویرے ایک پریس بریفنگ کے دوران آرمینیا کی وزارت دفاع کے ترجمان آرم توروسیان نے کہا کہ لڑائی جاری رہنے کی وجہ سے صورت حال ''انتہائی کشیدہ'' ہے۔

آرمینیا اور آذربائیجان کا ایک دوسرے پر الزام

دونوں ہی ممالک کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے دوسری جانب سے ہونے والی اشتعال انگیزی کے خلاف متناسب جوابی کارروائی شروع کی ہے۔

آرمینیا کی وزارت دفاع نے اپنے بیان میں کہا، ''منگل کو صبح تقریبا ًایک بجے کے بعد آذربائیجان نے توپ خانے اور بڑی صلاحیت والے آتشیں اسلحے کے ساتھ، گورس، سوٹک اور جرموک کے شہروں کی سمت میں آرمینیائی فوجی ٹھکانوں پر شدید گولہ باری کی۔''

لیکن آذربائیجان نے آرمینیائی افواج پر یہ الزام عائد کیا کہ اس نے پیر کی رات کو سرحدی اضلاع دشکیسان، کیلبازار اور لاشین کے قریب بڑی تعداد میں بارودی سرنگیں بچھانے کے ساتھ ہی ہتھیار جمع کر کے ''بڑے پیمانے پر تخریبی کارروائیاں '' شروع کی تھیں۔

آذربائیجان کی وزارت دفاع نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ اس کی افواج نے آرمینیائی فوج کی اشتعال انگیزی کے رد عمل میں، جو جوابی اقدامات کیے ہیں، وہ مقامی سطح کے ہیں اور ان کا مقصد اس عسکری ساز و سامان کو نشانہ بنانا ہے، جو فائرنگ کے مقامات سے استعمال میں لائے جا رہے ہیں۔''

Konflikt Aserbaidschan Armenien | armenische Soldaten
دونوں ہی ممالک نے ان جھڑپوں میں اپنے فوجیوں کی ہلاکتوں کا اعتراف کیا ہے، تاہم کتنے افراد مارے گئے اس تعداد کی تصدیق نہیں کی گئیتصویر: KAREN MINASYAN/AFP

آرمینیائی فورسز کا کہنا ہے کہ انہوں نے حملے کے جواب میں ''متناسب'' جوابی کارروائی کی۔ تاہم آذربائیجان کی وزارت دفاع نے کہا کہ اس کی فوج، ''آرمینیا کی متعدد فوجی یونٹوں کی طرف سے مارٹر سمیت مختلف صلاحیتوں کے ہتھیاروں سے ہونے والی شدید گولہ باری کی زد میں آئے۔''

دونوں ہی ممالک نے ان جھڑپوں میں اپنے فوجیوں کی ہلاکتوں کا اعتراف کیا ہے، تاہم کتنے افراد مارے گئے اس تعداد کی تصدیق نہیں کی گئی۔

آرمینیا کی عالمی رہنماؤں سے اپیل

آرمینیا کا کہنا ہے کہ وہ اس مسئلے پر روس کے زیر قیادت اجتماعی سلامتی  سے متعلق معاہدہ تنظیم (سی ایس ٹی او) کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے بھی اپیل کرنے والا ہے۔ اس تنظیم کا تعلق سوویت یونین کے دور سے ہے۔

 آرمینیا کے وزیر اعظم پشینیان نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے فون پر تشدد کے پھیلنے کے بارے میں بات چیت کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق انہوں نے فرانسیسی صدر ایمانوئل میکراں اور امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کو بھی فون کیا ہے۔

پشینیان کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ فون کالیں انہیں "آرمینیا کی خود مختار سرزمین کے خلاف آذربائیجان کی جارحانہ کارروائیوں" سے آگاہ کرنے اور "عالمی برادری سے مناسب رد عمل" کا مطالبہ کرنے کے لیے کی گئی ہیں۔

امریکہ نے تصادم کے خاتمے کا مطالبہ کیا

اس دوران امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے ایک بیان میں کہا کہ "جیسا کہ ہم کافی عرصے پہلے ہی واضح کر چکے ہیں، اس تنازعے کا کوئی فوجی حل نہیں ہو سکتا۔ ہم کسی بھی فوجی دشمنی کو فوری طور پر ختم کرنے پر زور دیتے ہیں۔"

ترکی، جو آذربائیجان کا قریبی اتحادی ہے، نے اس تشدد کے پھیلنے کا ذمہ دار آرمینیا کو ٹھہرایا ہے اور امن مذاکرات کا مطالبہ کیا ہے۔

ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے اپنے ایک ٹوئٹ پیغام میں لکھا، "آرمینیا کو اپنی اشتعال انگیزی بند کرنی چاہیے اور آذربائیجان کے ساتھ امن مذاکرات اور تعاون پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔"

نگورنو کاراباخ کا دیرینہ تنازعہ

نگورنو کاراباخ  کے علاقے میں آرمینیائی نسل کے لوگ آباد رہے ہیں، جس پر حالیہ دہائیوں میں آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان دو جنگیں ہو چکی ہیں۔

اس علاقے پر پہلےآذربائیجان کا کنٹرولتھا تاہم تقریباً 30 برسوں تک آرمینیائی علیحدگی پسندوں کے قبضے میں رہا۔ لیکن سن 2020 میں چھے ہفتے کی جنگ کے بعد آذربائیجان نے اس کے بیشتر حصے پر اپنا کنٹرول دوبارہ بحال کر لیا اور پھر روس کی ثالثی میں جنگ بندی کے معاہدے کے بعد یہ علاقہ آذربائیجان کو سونپ دیا گیا۔

گزشتہ ہفتے آرمینیا نے آذربائیجان پر سرحدی فائرنگ کے تبادلے میں اس کے ایک فوجی کو ہلاک کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ لیکن  آذربائیجان کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں آرمینیا کی فوج بھی اس کے فوجیوں پر فائرنگ کرتی رہی ہے۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، انٹرفیکس، روئٹرز، ڈی پی اے)

آرمینیائی ’نسل کشی‘ میں جرمنی کا کردار