اگلا برطانوی وزیر اعظم کون: مے یا لَیڈسم
8 جولائی 2016کنزرویٹو پارٹی کی قیادت کے لیے پارٹی ممبران موجودہ وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی کابینہ میں شامل وزیر داخلہ تھیریسا مے یا وزیر توانائی اینڈریا لَیڈسم میں سے ایک کا انتخاب کریں گے۔ لَیڈسم بریگزٹ کی زور دار حامیوں میں شمار کی جاتی ہیں اور وہ کیمرون کی کابینہ میں توانائی سے متعلقہ امور کی وزیرِ مملکت ہیں۔
بریگزٹ ریفرنڈم کی مہم کے دوران تھیریسا مے وزیر اعظم کے ہمراہ یورپی یونین میں ہی رہنے کے حامیوں میں شمار کی جاتی تھیں۔ دوسری جانب اینڈریا لَیڈسم لندن شہر کے سابق میئر بورس جانسن کے ہمراہ برطانیہ کے یونین سے اخراج کی حامی مہم کا حصہ تھیں۔
بریگزٹ ریفرنڈم کے اگلے روز وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے وزارتِ عظمیٰ کا منصب چھوڑ دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ رواں برس اکتوبر میں کنزرویٹو پارٹی کے سالانہ کنوینشن سے قبل سبکدوش ہو جائیں گے۔ کیمرون نے یہ بھی کہا تھا کہ یورپی یونین سے مکمل انخلا کا عمل ایک نیا پارٹی لیڈر اور وزیر اعظم ہی مکمل کرے گا۔ برطانوی قدامت پسند جماعت کی قیادت کے لیے پانچ امیدوار سامنے آئے تھے اور وہ مختلف دنوں میں ہونے والی پارلیمانی اراکین کی ووٹنگ میں خارج ہوتے گئے۔ ان میں موجودہ وزیر انصاف مائیکل گوو کے علاوہ سابق وزیر مملکت برائے دفاع لیئم فَوکس بھی شامل تھے۔
برطانیہ کے یورپی یونین کو خیرباد کہنے کے حوالے سے دونوں خاتون رہنماؤں کے سیاسی نظریات سامنے آ چکے ہیں۔ تھیریسا مے کا خیال ہے کہ بریگزٹ سے بریگزٹ ہی مراد لی جائے گی لیکن یونین کو خیرباد کہنے کے لیے آرٹیکل پچاس سے قبل برطانوی مذاکراتی عمل واضح اور شفاف ہونا ضروری ہے اور مذاکراتی عمل کی تکمیل کے بعد ہی اس آرٹیکل کو استعمال میں لایا جائے گا۔ دوسری جانب اینڈریا لَیڈسم کا کہنا ہے کہ وہ یورپی یونین کے معاہدے کے آرٹیکل پچاس پر فوری عمل درآمد کے حق میں ہیں اور یونین کو خیرباد کہنے سے متعلق مذاکرات کی بغیر کسی تاخیر کے تکمیل کو ترجیح دیتی ہیں۔
موجودہ وزیر داخلہ تھیریسا مے نے اب تک ہونے والی ووٹنگ میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ امکان قوی ہے کہ وزیر اعظم بننے کے لیے سب سے پسندیدہ امیدوار وہی ہیں۔ دوسری جانب تجزیہ کار اینڈریا لَیڈسم کی طرف سے حیران کن کامیابی حاصل کر لینے کو بھی خارج از امکان خیال نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ کنزرویٹو پارٹی کے ارکان کو قائل کرنے میں بریگزٹ کے حامی سیاستدان فعال کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اس بات پر سبھی متفق ہیں کہ پارٹی کی نئی لیڈر شپ کا انحصار صرف بریگزٹ پر ہی نہیں بلکہ اس صورت حال میں دونوں خاتون سیاستدانوں کے ملکی معاملات میں قدامت پسندانہ رجحانات بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان دونوں خواتین میں سے جسے بھی نئی پارٹی لیڈر منتخب کیا گیا، وہی شخصیت برطانیہ کی دوسری خاتون وزیر اعظم ہو گی۔ برطانیہ کی پہلی خاتون وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر تھیں۔
اینڈریا لَیڈسم واضح طور پر آنجہانی ’آئرن لیڈی‘ تھیچر کو اپنا سیاسی آئیڈیل خیال کرتی ہیں جبکہ تھیریسا مے بھی مارگریٹ تھیچر کے ساتھ کام کر چکی ہیں لیکن بعض قدامت پسند سیاسی حلقوں کے نزدیک وہ ایک ’مشکل‘ خاتون سیاستدان تصور کی جاتی ہیں۔