'ایرانی حملے میں 50 امریکی فوجیوں کو دماغی چوٹیں آئیں‘
29 جنوری 2020دلچسپ بات ہے کہ آٹھ جنوری کو ہوئے حملے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ اس حملے میں کوئی زخمی نہیں ہوا ہے۔
پینٹاگون نے منگل 28 جنوری کو روز تسلیم کیا کہ مغربی عراق میں اس کے عین الاسد ایئر بیس پرآٹھ جنوری کو ایرانی میزائل حملے میں 50 امریکی فوجیوں کو شدید دماغی چوٹیں آئیں۔ ان میں سے 18 کا جرمنی میں علاج کیا گیا تھا۔
ایرانی فضائی حملے کے ایک ہفتے بعد بتایا گیا تھا کہ گیارہ فوجیوں کا گہری دماغی چوٹوں کا علاج چل رہا ہے۔ بعد میں زیر علاج زخمی امریکی فوجیوں کی تعداد 34 بتائی گئی۔
پینٹاگون کے ترجمان لفٹیننٹ کرنل تھامس کیمپبیل نے بتایا کہ 16 مزید امریکی فوجیوں کو بھی دماغی چوٹ آئی ہے۔ جن فوجیوں کو چوٹیں آئیں ان میں سے اب تک 31 علاج کے بعد کام پر لوٹ چکے ہیں۔
کیمپبیل نے ایک بیان میں کہا کہ مغربی عراق میں عین الاسد فضائی اڈے پر ایرانی میزائل حملے کے بعد ”آج کی تاریخ تک 50 امریکی فوجیوں کی شدید دماغی چوٹ(ٹرامیٹک برین انجری) کی تشخیص ہوئی تھی۔ "
ان زخمی امریکی فوجیوں کا عراق میں اور دیگر مقامات پر فوجی اسپتالوں میں علاج کیا گیا۔ ان میں براعظم امریکا سے باہر سب سے بڑے امریکی فوجی اسپتال جرمنی کے لنڈستھل ریجنل میڈیکل سینٹر میں بھی اٹھارہ فوجیوں کا علا ج کیا گیا۔ ایک امریکی فوجی کو علاج کے لیے کویت میں امریکی ملٹری ہاسپیٹل بھیجا گیا۔
آٹھ جنوری کو جب عین الاسد فوجی اڈے پر ایرانی میزائل حملہ ہوا، اس وقت امریکا کے 1500 فوجیوں میں سے بیشتر بنکروں میں تھے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد کہ حملے میں کوئی زخمی نہیں ہوا ہے امریکیوں نے بڑی حد تک اطمینان کی سانس لی تھی۔
قبل ازیں داووس میں ورلڈ اکنامک فورم میں صدر ٹرمپ سے جب امریکی فوجیو ں کے بارے میں سوال کیا گیا تھا تو ان کا کہنا تھا، ”میں نے سنا ہے کہ انھیں سر میں درد اور کچھ دیگر مسائل تھے لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ بہت سنگین نہیں ہے۔" جب ان سے ممکنہ دماغی چوٹوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا تھا، ”میں نے جو دوسری طرح کی چوٹیں دیکھی ہیں، ان کے مقابلے میں میں انھیں زیادہ سنگین نہیں سمجھتا۔“
دریں اثنا عراق اور افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی غیر حکومتی تنظیم 'عراق اینڈ افغانستان ویٹرنز آف امریکا‘ نے زخمیوں کی اصل تعداد اور حقیقی نوعیت ظاہر کرنے میں تاخیر کرنے پر ٹرمپ انتظامیہ پر نکتہ چینی کی اور کہا کہ امریکی حکومت کو اس حوالے سے اعتماد کے قابل ہونا چاہیے کہ وہ خطرے کے زد میں گھرے ہوئے بیٹوں اور بیٹیوں کے حوالے سے معلومات کا تبادلہ کرے گی۔
خیال رہے کہ ایران نے اپنے القدس فورس کے سربراہ اور اہم فوجی جنرل قاسم سلیمانی کی تین جنوری کو امریکی حملے میں ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے عراق میں واقع دو امریکی فوجی اڈوں پر میزائل داغے تھے۔
ج ا / ا ب ا (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی)