ایرانی سپریم لیڈر نے پزشکیان کی بطور صدر توثیق کر دی
28 جولائی 2024ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے آج اتوار کے روز مسعود پزشکیان کی ملکی صدر کا عہدہ سنبھالنے کے لیے باضابطہ توثیق کر دی۔ اب اصلاح پسند سیاست دان اور ہارٹ سرجن پزشکیان جوہری پروگرام پر پابندیوں کی وجہ سے معاشی بحران کے شکار اس ملک کی قیادت سنبھالیں گے۔
تہران میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران آیت اللہ علی خامنہ ای نے پزشکیان پر زور دیا کہ وہ پڑوسی ملکوں کے ساتھ ساتھ افریقی اور ایشیائی ممالک اور ان ریاستوں کو ترجیح دیں، جنہوں نے تہران کی خارجہ تعلقات کی پالیسیوں میں ایران کی ''حمایت اور مدد‘‘ کی ہے۔ خامنہ ای نے ایران پر پابندیاں عائد کرنے اور اس پر انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے الزامات لگانے پر یورپی ممالک کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔
اس موقع پر اپنے خطاب میں مسعود پزشکیان نے ایران کی علاقائی عسکری سرگرمیوں کے معمار جنرل قاسم سلیمانی کو خراج عقیدت پیش کیا، جو سن 2020 میں امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔ انہوں نے ایک ''تعمیری اور موثر‘‘ خارجہ پالیسی، قانون کی حکمرانی، شہریوں کو مساوی مواقع فراہم کرنے، خاندانوں کی مدد کرنے اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے کام کرنے کے اپنے وعدوں کا اعادہ کیا۔
پہلے نائب صدر کا انتخاب
اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے سرکاری حکم کے تحت پزشکیان نے 72 سالہ محمد رضا عارف کو اپنا پہلا نائب صدر مقرر کیا۔ عارف کو ایک اعتدال پسند اور اصلاح پسند رہنما سمجھا جاتا ہے وہ سابق صدر محمد خاتمی کے دور میں سن 2001 سے 2005 کے درمیان پہلے بھی اس عہدے پر فائز رہے۔ عارف نے اسٹین فورڈ یونیورسٹی سے انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔
پزشکیان نے اپنے پیشرو ابراہیم رئیسی کی ایک ہیلی کاپٹر کے حادثے میں موت کے بعد صدر کا عہدہ سنبھالا ہے۔ پیزشکیان منگل کو پارلیمنٹ میں اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے اور پارلیمنٹ سے اعتماد کے ووٹ اور اپنی کابینہ کی تشکیل کے لیے ان کے پاس دو ہفتے کا وقت ہو گا۔ نئے ایرانی صدر نے اپنی انتخابی مہم میں عہد کیا تھا کہ وہ ایران کی شیعہ تھیوکریسی میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں کریں گے اور وہ خامنہ ای کو ریاست کے تمام معاملات میں حتمی ثالث کے طور پر قبول کرتے ہیں۔
نئے صدر کو درپیش چیلنج
پزشکیان ایران کی خارجہ پالیسی کو مغرب کے ساتھ محاذ آرائی یا تعاون کی طرف موڑ سکتے ہیں تاہم انہیں اب بھی ان سخت گیر حلقوں کی جانب سے مسلسل چیلنج کا سامنا ہے، جو حکومتی امور میں اپنا اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ غزہ کی پٹی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ اور ایران کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے لیے مطلوبہ معیار کی یورینیم افزودہ کرنے پر مغربی خدشات پزشکیان کو درپیش اہم چیلنجوں میں شامل ہیں۔
ایران نے اس سال اپریل میں غزہ کی جنگ کے دوران اسرائیل پر اپنا پہلا براہ راست حملہ کیا، جب کہ تہران کے حمایت یافتہ مسلح ملیشیا گروپس، جن میں لبنان میں حزب اللہ اور یمن کے حوثی باغی شامل ہیں، نے بھی اسرائیل کے خلاف اپنے حملوں میں تیزی لائی ہے۔ ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے ساتھ بالواسطہ بات چیت کی ہے لیکن تہران کے خلاف سخت اقتصادی پابندیاں ہٹانے میں اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔
ش ر ⁄ ع آ (اے پی)