1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران امریکا کشیدگی: بھارت کو کونسے خطرات لاحق ہیں؟

جاوید اختر، نئی دہلی
14 جنوری 2020

امریکی حملے میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف بھارت کے اپنے پہلے تین روزہ دورے پر آج منگل کو نئی دہلی پہنچ رہے ہیں۔ ایران امریکا کشیدگی بھارتی مفادات کو کیسے متاثر کر سکتی ہے؟

https://p.dw.com/p/3WAEK
Symbolbild Kündigung Atomabkommen mit Iran durch USA
تصویر: Imago/Ralph Peters

جواد ظریف یوں تو بھارتی وزارت خارجہ کے تعاون سے منعقد ہونے والے سالانہ 'رائے سینا ڈائیلاگ‘ میں شرکت کے لیے آرہے ہیں لیکن وہ مغربی ایشیا کی موجودہ کشیدہ صور ت حال پر اپنے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر اور وزیر اعظم نریندر مودی سے خصوصی طور پر تبادلہ خیال کریں گے۔ جواد ظریف اس پروگرام میں شریک دیگر ملکوں کے رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔

بھارتی وزارت خارجہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت کے نقطہ نظر سے ایرانی وزیر خارجہ کا یہ دورہ کافی اہمیت کا حامل ہے۔ ایرانی جنر ل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد بھارتی وزیر خارجہ نے جواد ظریف سے فون پر گفتگو بھی کی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت چاہتا ہے کہ خطے میں کشیدگی جتنی جلد دور ہو اتنا ہی بہتر ہے کیوں کہ کشیدہ صورت حال سے بھارت کے مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس لیے بھارت تمام اہم فریقین بشمول ایران، متحدہ عرب امارات، عمان اور قطر کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے۔

بھارت تیل کی اپنی ضرورت کا تقریباً اسی فیصد درآمدات سے پورا کرتا ہے اور عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہونے کی وجہ سے پہلے سے ہی مشکلات سے دوچار بھارتی معیشت کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ حالانکہ امریکی دباو کی وجہ سے بھارت نے ایران سے تیل کی درآمدات تقریباً بند کر دی تھیں لیکن خلیج میں عدم استحکام کی صورت میں بھارتی معیشت مزید پریشانیوں سے دوچار ہو جائے گی۔

Iran Atomabkommen l Außenminister  Javad Zarif
ایرانی وزیر خارجہتصویر: Reuters/E. Novozhenina

 تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خطے میں حالات بگڑنے سے چابہار بندرگا ہ کی تعمیر کا معاملہ بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اسے بھارت، ایران اور افغانستان کی طرف سے مشترکہ طور پر ڈیولپ کیا جا رہا ہے۔ بھارت اس بندرگاہ کو افغانستان اور وسطی ایشیائی ملکوں کے لیے اپنا داخلی دروازہ سمجھتا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی اس منصوبے میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں تاہم اس کا کام انتہائی سست رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے۔ تہران میں پچھلے دنوں بھارت ایران مشترکہ اقتصادی کمیشن کی میٹنگ ہوئی تھی، جس میں دونوں ملکوں نے اس پروجیکٹ کو تیز بنانےکا اعادہ کیا تھا۔ لیکن بھار ت کی نجی کمپنیاں ایران میں اس پروجیکٹ میں بہت زیادہ دلچسپی نہیں لے رہی ہیں۔

 امریکا کی طرف سے ایران کے خلاف سخت پابندیاں عائد کیے جانے اور حالیہ فضائی کارروائی کے بعد نجی سرمایہ کار اس پروجیکٹ سے مزید دور ہوتے جا رہے ہیں جب کہ نجی سرمایہ کاری کے بغیر اس پروجیکٹ کا کامیاب ہونا مشکل ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت امریکا اور ایران دونوں سے ہی اپنے تعلقات خوشگوار رکھنا چاہتا ہے، اس لیے وہ بہت پھونک پھونک کر قدم اٹھا رہا ہے۔ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد بھی بھارت نے کافی محتاط بیان دیا تھا۔

مشہور بھارتی تھنک ٹینک آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن میں اسڑیٹیجک اسٹڈیز پروگرام کے سربراہ پروفیسر ہرش وی پنت نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے،”ایران اور امریکا کے درمیان تعلقات میں اگر مزید کشیدگی آئی اور موجودہ صورت حال مزید خراب ہوئے تو بھارت کے لیے توازن قائم کرنا ایک بہت بڑا چیلنج  ہو گا۔ اس وقت مشرق وسطی میں جو حالات ہیں اگر وہ برقرار رہے تو بھارتی معیشت، خلیجی ملکوں میں کام کرنے والے اس کے شہریوں، بھارت کے علاقائی مفادات اور مشرق وسطی میں اس کے اسٹریٹیجک معاملات پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ اور بھارت کو ایسی کسی بھی صورت حال کے لیے تیار رہنا چاہیے۔"

رائے سینا ڈائیلاگ کیا ہے؟

رائے سینا ڈائیلاگ ایک بین الاقوامی پروگرام ہے۔ مودی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد 2016ء میں پہلی مرتبہ اس کا انعقاد کیا تھا۔ اسے بھارت کے معروف تھنک ٹینک آبزرور ریسرچ فاونڈیشن کے تعاون سے منعقد کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد دنیا کے مختلف ملکوں کے لوگوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے، جہاں دنیا کو درپیش سیاسی اور اقتصادی امور کے علاوہ دیگر چیلنجز پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ اس  سال سات ملکوں کے سربراہان سمیت تقریباً ایک سو ممالک کے 700 نمائندے اس میں حصہ لے رہے ہیں۔ اس میں بارہ ملکوں کے وزرائے خارجہ اور یورپی یونین کے نمائندے بھی شامل ہوں گے۔