ایران میں بغیر حجاب کے دوڑنے پر کھیلوں کے سربراہ کا استعفیٰ
8 مئی 2023ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی آئی آر این اے (ارنا) نے سات مئی اتوار کے روز یہ اطلاع دی کہ ملک کی ایتھلیٹکس فیڈریشن کے سربراہ ہاشم سیامی نے کھیلوں کے ایک ایسے ایونٹ کے حوالے سے اپنا استعفیٰ سونپ دیا، جہاں خواتین نے لازمی ہیڈ اسکارف کے بغیر مقابلہ کیا تھا۔
ایران بھر میں ’بے حجاب‘ خواتین کی شناخت کے لیے کمیرے نصب
ایجنسی نے بتایا کہ ''ہاشم سیامی نے جنوبی ایران کے شیراز میں منعقدہ اس دوڑ سے پیدا ہونے والے تنازعات کی وجہ سے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا، جہاں پر خواتین نے بغیر اسکارف کے دوڑ کے ایک مقابلے میں حصہ لیا۔''
ایران میں مظاہرے: نابالغ قیدیوں کو ’خوفناک تشدد‘ کا سامنا، ایمنسٹی
ہفتے کے روز سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی تصاویر اور فوٹیج میں خواتین کو بغیر حجاب کے کھیلوں کے لباس میں دوڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ سن 1980 کی دہائی سے عوامی جگہوں پر ملک میں خواتین کے لیے حجاب پہننا لازمی ہے۔
سول نافرمانی: تہران میں رقص کرتی لڑکیوں کی ویڈیو وائرل
میراتھن کے منتظمین شدید تنقید کی زد میں
ہاشم سیامی کا استعفیٰ اس وقت سامنے آیا، جب صوبائی پراسیکیوٹر نے میراتھن کے منتظمین کو ''تباہ کن'' کام کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے انہیں جواب دینے کے لیے طلب کیا۔
حجاب یا بلا حجاب، ایران کو نئے انقلاب کی ضرورت ہے، تبصرہ
پراسیکیوٹر مصطفیٰ بحرینی نے مزید کہا کہ ''اہلکاروں کی کوتاہیوں، غلط کاموں اور اس کے ممکنہ قصورواروں سے تفتیش کی جائے گی۔''
کیا ایران ’حجاب قانون‘ میں تبدیلی کرنے جا رہا ہے؟
خبر رساں ادارے ارنا نے ہشام سیامی کے حوالے سے کہا ہے کہ وہ کھیل کے اس ایونٹ کے انعقاد میں شامل نہیں تھے، اور یہ کہ جن خواتین کھلاڑیوں نے بغیر حجاب کے دوڑ میں حصہ لیا وہ قومی فیڈریشن کا حصہ بھی نہیں ہیں۔
حجاب قانون کی مخالفت
حجاب پر ہی کرد نژاد ایرانی خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد سے ایران میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا، جس سے ملک لرز اٹھا۔ 22 سالہ لڑکی کو پولیس نے غلط طریقے سے حجاب پہننے کے الزام میں گرفتار کیا تھا، جن کی پولیس کی حراست میں ہی موت ہو گئی تھی۔
اس واقعے کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے دوران، جو تصاویر اور میڈیا کی رپورٹس سامنے آئیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ ایران کی بہت سی خواتین لباس اور حجاب سے متعلق ایران کے سخت قانون کی خلاف ورزی کرتی رہی ہیں۔
قانون کی مخالفت کرنے والی بہت سی خواتین نے بطور احتجاج اپنے بال تک کاٹ دیے جبکہ ایک بڑی تعداد میں بغیر اسکارف کے مظاہروں میں بھی شامل ہوئیں۔ ادھر ایرانی حکام کی جانب سے اس رجحان کے خلاف کریک ڈاؤن بھی جاری ہے۔
مقامی میڈیا کے مطابق تہران میں حکام نے گزشتہ ہفتے ہی کم از کم معروف چار ایسی اداکاراؤں کے خلاف کارروائی شروع کی ہے، جو حجاب کے بغیر عوام کے سامنے نکلی تھیں۔
گزشتہ ماہ حکام نے کہا تھا کہ ایران بھر میں 150 سے زیادہ ان تجارتی اداروں کو بھی بند کر دیا گیا ہے، جن کے ملازمین نے مبینہ طور پر ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کی تھی۔
اس قدر سخت مخالفت کے باوجود ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا کہنا ہے کہ قانون کے تحت حجاب پہننا لازمی ہے۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، ڈی ڈبلیو ذرائع)