1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران پاکستان انڈیا گیس پائپ لائن پروجیکٹ، بھارت اب بھی پرامید

افتخار گیلانی، نئی دہلی26 مئی 2009

سات ارب ڈالر والے ایران پاکستان انڈیا گیس پائپ لائن پر وجیکٹ پر ایران اور پاکستان کے درمیان معاہدہ ہوجانے سے یہ خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ کیا بھارت اس پروجیکٹ کا حصہ بن سکے گا؟

https://p.dw.com/p/Hxn5
پاکستان اور ایران اس معاہدے میں آگے بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں

توانائی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے بھارت کے لئے ایران پاکستان انڈیاگیس پائپ لائن پروجیکٹ ایک اہم منصوبہ ہے اور پچھلے کئی برسوں سے اس سہ ملکی پروجیکٹ پر بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔ تاہم متعدد الجھنوں کی وجہ سے آج تک اس پر کوئی معاہدہ نہیں ہوسکا۔ بالآخر ایران اور پاکستان نے بھارت کو ایک طرف کرتے ہوئے اس پروجیکٹ پر دستخط کردئے جس سے اس سات ارب ڈالر کے پروجیکٹ سے بھارت کو الگ کردئے جانے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ بھارت میں نئی حکومت کے قیام کے بعد ابھی تک کسی کو پٹرولیم اور قدرتی گیس کی وزارت نہیں دی گئی ہے لیکن ایک سینئر افسر نے بتایا کہ حکومت کی پوری تشکیل کے بعد اس سلسلے میں ایران اور پاکستان سے بات چیت کی جائے گی۔ اس حوالے سے توانائی امور کے ماہر دیب جیت چکروتی نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ابھی یہ معاہدہ مکمل نہیں ہے۔ یہ گیس کو فروخت کرنے کا معاہدہ نہیں ہے۔ جب کوئی ملٹی نیشنل معاہدہ ہوتا ہے تو اس میں ایسے کئی ضمنی معاہدے کئے جاتے ہیں۔ ابھی جو معاہدہ ہوا ہے اس میں ایران کی طرف سے صرف یہ خواہش ظاہر کی گئی ہے کہ وہ پاکستان کو گیس فروخت کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ پاکستان میں سوئی گیس ذخائر ختم ہونے کے قریب ہیں اس لئے بھی یہ گیس پائپ لائن پروجیکٹ بھارت سے زیادہ پاکستان کے لئے اہم ہے۔

حالانکہ بھارت 2775 کلومیٹر طویل اس گیس پائپ لائن پروجیکٹ میں شامل ہے لیکن گزشتہ سال اکتوبر میں اس پروجیکٹ کے متعلق ہونے والی اہم میٹنگ میں شرکت نہیں کی۔ اس میٹنگ میں ایران اور پاکستان کے حکام نے پروجیکٹ کی لاگت اور گیس کی نئی قیمت کے سلسلے میں تبادلہ خیال کیا تھا۔ جب دیب جیت چکروتی سے پوچھا گیاکہ کیا ایسا نہیں لگتا کہ بھارت اس پروجیکٹ کو منطقی انجام تک پہنچانے میں پس و پیش سے کام لینے کی کوشش کررہا ہے تو انہوں نے کہا کہ چونکہ یہ پائپ لائن پاکستان کے ان علاقوں سے ہوکر بھارت پہنچے گی جہاں حالات پرسکون نہیں ہیں اس لئے بھارت کو اس کی سلامتی پر بھی تشویش ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ اتنا آسان بھی نہیں ہے کہ صرف ایک دو میٹنگوں میں حل ہوجائے۔ اس کے علاوہ امریکہ کی طرف سے ایران کے خلاف عائد پابندیاں بھی ایک وجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران میں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں اور بھارت یہ دیکھے گا کہ وہاں نیا صدر کون آتا ہے اور اس کے سلسلے میں امریکہ کا کیا رویہ رہتا ہے۔

Karte mit Kaspischem Meer
منصوبے کے مطابق بھارت تک پاکستان کے راستے گیس پہنچنی ہےتصویر: AP

پٹرولیم اور قدرتی گیس کی وزارت کے سینئر افسر نے کہا کہ بھارت توانائی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے مختلف وسائل پر غور کررہا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی چاہتا ہے کہ گیس مناسب قیمت پر ملے۔ ا نہوں نے کہا کہ اگر ایک ہی پائپ لائن کے ذریعہ گیس پاکستان ہوتے ہوئے بھارت پہنچتی ہے تو اس پر پاکستان کو اضافی انفراسٹرکچر اور سیکیورٹی کا کوئی خرچ نہیں آئے گا۔ اس لئے پاکستان جتنا ٹرانزٹ فیس کا مطالبہ کررہا ہے وہ مناسب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ ٹرانزٹ فیس اور پائپ لائن کی سیکیورٹی پر بات چیت چل رہی ہے جو ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچی ہے۔

اس سے پہلے تینوں ملک گیس کی قیمت کے سلسلے میں 4.9 ڈالر فی ملین برٹش تھرمل یونٹ پر راضی ہوگئے تھے لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ چونکہ بھارت کو پاکستان کو ٹرانسپورٹیشن چارج بھی ادا کرنا ہوگا اس لئے بھارت پہنچنے پر اس کی قیمت آٹھ تا دس ڈالر فی ملین برٹش تھرمل یونٹ تک پہنچ سکتی ہے۔ ماضی میں ایسی خبریں بھی آئی تھیں کہ چونکہ ایران اور پاکستان چین کو تیسرے فریق کی حیثیت سے اس پروجیکٹ میں شامل کرنے کی کوشش کررہے ہیں اس لئے بھارت اس سے الگ ہوسکتا ہے تاہم وزارت پٹرولیم کے افسر نے اس طرح کی کسی تجویز کی تردید کی۔

بھارت نے اس پروجیکٹ کے سلسلے میں کئی تجاویز بھی پیش کی ہیں۔ اس نے ایک تجویز یہ دی کہ ایران کی فارس گیس فیلڈ سے دو متوازی لائنیں بچھائی جائیں۔ ایک بھارت کو آئے دوسری پاکستان کوجائے۔ اس کی دوسری تجویز یہ ہے کہ ایران سے گیس براہ راست پاکستانی سرحد کے نزدیک بھارت کی سرزمین پر پہنچے ۔ وہاں ایک گیس گرڈ بنائی جائے جہاں سے گیس پاکستان کو دی جائے تاکہ بھارت اور پاکستان کے درمیان مستقبل میں کسی ناخوشگوار واقعہ کی صورت میں گیس کی سپلائی بند نہیں ہوسکے۔

اصل منصوبے کے تحت اس پائپ لائن کے ذریعہ ایران پاکستان اور بھارت کو روزانہ 30-30 ملین کیوبک میٹر گیس دے گا اور بعد میں پائپ لائن کی صلاحیت کو بڑھا کر 150ملین کیوبک میٹر یومیہ کردیا جائے گا۔