1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایشیا: اسلحے کے انبار اور بڑھتے دفاعی اخراجات

18 مارچ 2013

ہتھیاروں کی بین الاقوامی تجارت کے دو نمایاں رجحانات ہیں: ایک یہ کہ 2012ء میں ایشیا میں دفاعی اخراجات یورپی ریاستوں سے بڑھ گئے۔ دوسرا یہ کہ پہلی مرتبہ چین برطانیہ کی جگہ اسلحہ برآمد کرنے والا پانچواں بڑا ملک بن گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/17zYw
تصویر: Reuters

سرد جنگ کے بعد سے پہ پہلا موقع ہے کہ دنیا کے اسلحہ برآمد کرنے والے پانچ بڑے ممالک کی درجہ بندی میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔ تزویراتی مطالعات کے بین الاقوامی انسٹیٹیوٹ IISS نے ’فوجی توازن‘ کے عنوان سے اپنی سالانہ رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ’فوجی طاقت کی عالمگیر ترتیب میں تبدیلی کا عمل آگے بڑھ رہا ہے‘۔

امن اور تنازعات پر تحقیق کے لیے سٹاک ہولم میں قائم انسٹیٹیوٹ SIPRI نے بھی حال ہی میں ’ہتھیاروں کی بین الاقوامی تجارت میں رجحانات‘ کے عنوان سے اپنا ایک جائزہ جاری کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اس تجارت کے حوالے سے اب واضح طور پر ایشیا کا پلاّ بھاری دکھائی دے رہا ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران دنیا کے جن پانچ ملکوں نے سب سے زیادہ ہتھیار درآمد کیے، وہ ہیں، بھارت، چین، پاکستان، جنوبی کوریا اور سنگا پور۔

1989ء سے بھارت کے زیر استعمال سابقہ برطانوی بحری بیڑا، جسے اب INS Viraat (آئی ایس این ویرات) کہا جاتا ہے
1989ء سے بھارت کے زیر استعمال سابقہ برطانوی بحری بیڑا، جسے اب INS Viraat (آئی ایس این ویرات) کہا جاتا ہےتصویر: Getty Images

تنازعات اور اُن میں شدت پیدا ہونے کے خطرات

SIPRI کے ایشیائی امور کے ماہر سیمون ویزیمان کے مطابق ایشیا میں بڑھتے ہوئے دفاعی اخراجات کی ایک وجہ ’ایشیا میں بڑی تعداد میں پائے جانے والے خطرات اور علاقائی تنازعات‘ ہیں۔ اُنہوں نے پاکستان اور بھارت کی روایتی دشمنی، شمالی کوریا کی جانب سے دھمکیوں میں تیزی اور بحیرہء جنوب مشرقی چین میں علاقائی ملکیت پر موجود تنازعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ایشیا اس وقت بے یقینی کا شکار ہے‘۔

دوسری جانب IISS نے ناقدانہ انداز میں کہا ہے کہ زیادہ مقدار میں نئے ہتھیاروں کی خریداری کا مطلب زیادہ سلامتی ہرگز نہیں ہے: ’’مشرقی ایشیا جیسے خطّے میں، جہاں سکیورٹی نظاموں کا فُقدان ہے، ترقی یافتہ فوجی نظاموں کے حصول کے نتیجے میں بلا ارادہ تنازعات اور اُن میں شدت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔‘‘

مغربی دنیا کی کمزوری ایشیا کی طاقت ہے

ویزیمان کے مطابق ایشیائی ممالک اپنی ترقی کرتی ہوئی معیشتوں کی وجہ سے بھی زیادہ سے زیادہ ہتھیار خریدنے کے قابل ہوتے جا رہے ہیں جبکہ اقتصادی بحرانوں کی زَد میں آئے ہوئے شمالی امریکا اور یورپی ممالک کو اپنے اپنے دفاعی اخراجات میں کمی کرنا پڑ رہی ہے۔

اعداد و شمار کی روشنی میں دیکھا جائے تو ایشیا (بشمول آسٹریلیا) کے حصے میں عالمگیر دفاعی اخراجات کا 19.9 فیصد حصہ آتا ہے۔ یورپ کے لیے یہ شرح 17.6 فیصد جبکہ شمالی امریکا کے لیے 42 فیصد ہے۔

پاکستانی قبائلی علاقے وزیرستان میں سرگرم عمل پاکستانی فوجی (2009ء کی ایک تصویر)
قبائلی علاقے وزیرستان میں سرگرم عمل پاکستانی فوجی (2009ء کی ایک تصویر)تصویر: AP

اب چین پانچویں نمبر پر ہے

اگرچہ ہتھیاروں کی عالمگیر تجارت پر ابھی بھی امریکا اور روس کو غلبہ حاصل ہے تاہم اب چین برطانیہ کو ہٹا کر دنیا کا اسلحہ برآمد کرنے والا پانچواں بڑا ملک بن گیا ہے۔ اِس کی سب سے بڑی وجہ پاکستان کو چینی ہتھیاروں کی فروخت ہے۔ چین اپنے نصف سے زیادہ یعنی 55 فیصد ہتھیار پاکستان کو فروخت کر رہا ہے۔

SIPRI کے ماہر سیمون ویزیمان کے مطابق چونکہ چین کو چھوڑ کر ایشیا کے دیگر سبھی ممالک کی اپنی کوئی قابل ذکر اسلحہ صنعت نہیں ہے، اس لیے ان ممالک کا انحصار اسلحے کی درآمدات پر ہے۔ بھارت، جو اپنے ہتھیار خاص طور پر روس سے خریدتا ہے، گزشتہ پانچ برسوں کے دوران دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہتھیار درآمد کرنے والا ملک تھا۔

سلامتی کے امور کے ممتاز پاکستانی تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) فاروق حمید خان پاکستان کی جانب سے اتنے بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی درآمدات کے لیے روایتی حریف بھارت کا حوالہ دیتے ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ ’بھارت پاکستان کے لیے ایک مستقل خطرے کی حیثیت رکھتا ہے‘۔

اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہتھیاروں کے اعتبار سے اب امریکا کی جگہ چین پاکستان کا سب سے بڑا ساتھی ملک بن چکا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’اس تبدیلی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان امریکا کو ایک ناقابل اعتبار حلیف گردانتا ہے۔‘‘

24 ستمبر 2012ء کی اس تصویر میں چین میں تیار کیا گیا پہلا بحری بیڑا نظر آ رہا ہے
24 ستمبر 2012ء کی اس تصویر میں چین میں تیار کیا گیا پہلا بحری بیڑا نظر آ رہا ہےتصویر: Getty Images

ویزیمان کے مطابق دوسری طرف پاکستان کو ہتھیاروں سے لیس کرنے میں چین کا مفاد یہ ہے کہ اس طرح ’بھارت کو خائف رکھا جا سکتا ہے‘۔ ویزیمان کہتے ہیں کہ پاکستان دفاعی اعتبار سے اہم خطّے خلیج عرب تک چین کی رسائی کے لیے بھی ایک اہم ساتھی ملک کی حیثیت رکھتا ہے۔

اَفواج کی جدید خطوط پر تشکیل اور توسیع

اسلحے کے امور کے ماہر ویزیمان کے خیال میں مختلف ممالک اپنی اَفواج کو جدید خطوط پر ہی اُستوار نہیں کر رہے بلکہ وہ بہت سے کیسز میں اپنی اَفواج کو توسیع بھی دے رہے ہیں۔ فضائی اور بحری اَفواج کو خاص طور پر لیس کیا جا رہا ہے، بالخصوص چین کا کردار قائدانہ ہے۔ مثلاً چینی ساختہ بحری بیڑے میں ابھی کئی سقم ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ اسے چین نے خود بنایا ہے اور وہ بتدریج اپنی بحریہ کو مضبوط بناتا چلا جا رہا ہے۔

چین کی اسلحہ سازی کی مسلسل ترقی کرتی ہوئی صنعت کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کو ہو رہا ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ امریکا اپنے حلیف ممالک کو اپنی تکنیکی مہارت اور علم دینے سے انکار کرتا ہے۔ پاکستانی تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) فاروق حمید خان نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ امریکا پاکستان کو ڈرون ٹیکنالوجی نہیں دینا چاہتا۔ تاہم اُنہوں نے اِس یقین کا اظہار کیا کہ اِس خلاء کو چین پورا کر دے گا۔

R. Ebbighausen, aa / mm