ایکواڈور نے جولیان اسانج کی شہریت منسوخ کر دی
28 جولائی 2021ایکواڈور کی سابقہ حکومت نے سن 2018 میں وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج کو شہریت دینے کا اعلان کیا تھا تاہم موجودہ حکومت نے اس فیصلے کو منسوخ کر دیا ہے۔ اسانج فی الوقت برطانیہ کی ایک جیل میں ہیں اور ایکواڈور کے محکمہ انصاف نے انہیں باقاعدہ طور پر اپنے فیصلے سے مطلع کر دیا ہے۔
ایکواڈور کے حکام کا کہنا ہے کہ شہریت سے متعلق ان کی اصل درخواست میں متضاد باتیں، مختلف طرح کے دستخط اور فیس کی عدم ادائیگی جیسی متعدد خامیاں موجود تھیں۔
اسانج کے وکیل کارلوس پوویڈا نے خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹیڈ پریس کو بتایا کہ یہ فیصلہ کسی مناسب ضابطے کے بغیر کیا گیا ہے اور اسانج کو اس کے لیے اپنا موقف پیش کرنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا، یہ اسی تاریخ کی بات ہے جب(اسانج کے بارے میں) یہ بتایا گیا کہ انہیں اپنی آزادی سے محروم کر دیا گیا اور جہاں وہ قید ہیں وہاں وہ صحت کے مسائل کے ساتھ ہی آزادی سے بھی محروم ہیں۔ شہریت کی اہمیت سے زیادہ یہ حقوق کے احترام کی بات ہے اور شہریت کی منسوخی کے عمل میں مناسب ضوابط کی پاسداری کا خیال رکھنے کی بات ہے۔''
امریکا کے حوالے کرنے کے خلاف جد و جہد جاری ہے
کئی برسوں سے ایسا لگتا تھا کہ جولیان اسانج کی قسمت کا فیصلہ ان کی ایکوا ڈور سے نئی دوستی پر منحصر ہے لیکن نئی حکومت بننے سے پہلے ہی اس ملک سے ان کے تعلقات خراب ہونے شروع ہو گئے تھے۔ اسی برس ایکواڈور میں تقریباً دو عشرے بعد دائیں بازو کی طرف مائل صدر کا انتخاب ہوا ہے۔
لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں کئی برس ٹھکانہ مہیا کرنے کے بعد ایکواڈور کی سابقہ لینن مورینو کی حکومت نے شہریت دینے کا اعلان کیا تھا۔ ریپ اور جنسی حملے کے ایک مبینہ کیس میں سویڈن کی حوالگی سے بچنے کے لیے جولیان اسانج نے سن 2012 میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ لی تھی۔
سن 2019 میں مورینو کی حکومت نے اسانج کے سیاسی پناہ کی حیثیت کو ختم کر دیا تھا اور اسی کے بعد اپریل میں لندن کی پولیس نے انہیں ضمانتی ضوابط کی خلاف ورزی کرنے پر گرفتار کر لیا تھا تب سے وہ لندن کی معروف بیلمارش جیل میں ہیں۔
اسانج پر الزامات
انچاس سالہ آسٹریلین شہری جولیان اسانج کو سن 2010 اور سن 2011 کے دوران ہزاروں خفیہ امریکی دستاویزات کو منظر عام پر لانے سے متعلق متعدد الزامات کا سامنا ہے۔ امریکی حکام کا دعویٰ ہے کہ ان خفیہ دستاویزات کو عام کر کے اسانج نے امریکی قانون کے ساتھ ساتھ کئی افراد کی زندگیوں کو خطرات میں ڈال دیا تھا۔ امریکا نے خفیہ دستاویزات افشا کرنے کے الزام میں اسانج کی حوالگی کا مطالبہ کر رکھا ہے۔
اسانج کے وکلا کا کہنا ہے کہ امریکی تحویل میں دینے کے بعد الزام ثابت ہونے کی صورت میں اسانج کو امریکی عدالت 175 برس تک قید کی سزا سنا سکتی ہے۔ دوسری جانب امریکی حکومت کا موقف ہے کہ عدالت کی جانب سے دی جانے والی سزا کی مدت محض چار سے چھ برس تک ہو سکتی ہے۔
رواں برس جنوری میں برطانیہ کی ایک نچلی عدالت نے وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج کو امریکا کے حوالے نہ کرنے کا فیصلہ سنایا تھا۔ تاہم اس ماہ کے اوائل میں برطانوی ہائی کورٹ نے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کو منظوری دے دی ہے۔
ص ز/ ج ا (اے پی، ای ایف ای)