جولیان اسانج کو امریکا کے حوالے کیا جائے یا نہیں؟
7 ستمبر 2020جولیان اسانج امریکا کو بڑی شدت سے مطلوب تحقیقاتی صحافی ہیں جنہیں انسانی حقوق کے کارکن اظہار آزادی کی علامت قرار دیتے ہیں۔
واشنگٹن کا الزام ہے کہ انہوں نے امریکی فوج کی طرف سے عراق اور افغانستان میں بےگناہ شہریوں کی ہلاکت سے متعلق خفیہ سرکاری دستاویزات میڈیا میں عام کیں۔
امریکی حکام کے مطابق ان حساس معلومات کی تشہیر سے امریکی حکومت کے خفیہ آپریشن متاثر ہوئے اور ان کے لیے کام کرنے والوں کی شناخت ظاہر ہونے سے ان لوگوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوئے۔
تاہم یورپ اور امریکا میں ان کے حامیوں کی نظر میں انہیں امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کی طرف سے سچ بولنے کی سزا دی جا رہی ہے اور ان کے خلاف مقدمات 'سیاسی نوعیت‘ کے ہیں۔
لندن کی جیل میں قید
جولیان اسانج پچھلے سال سے مشرقی لندن میں واقع 'بیل مارش‘ نامی سخت ترین سکیورٹی والی جیل میں قید ہیں۔ یہ جیل دہشت گردی اور دیگر انتہائی سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کے لیے بنائی گئی تھی۔ بی بی سی کے مطابق اس برطانوی جیل کا موازنہ امریکی فوج کے زیر انتظام خلیج گوانتانامو کے حراستی مرکز سے کیا جا سکتا ہے۔
خیال ہے کہ جولیان اسانج کے خلاف پیر سات ستمبر سے لندن کی عدالت میں شروع ہونے والا مقدمہ تین ہفتے جاری رہے گا۔ اسانج کی قسمت کا فیصلہ عدالت کے اس فیصلے پر منحصر ہے کہ آیا انہیں امریکا کے حوالے کیا جائے گا یا نہیں۔ اگر عدالتی فیصلہ حوالگی کے حق میں آیا تو انہیں امریکا میں 175 سال تک کی سزائے قید سنائی جا سکتی ہے۔
لندن میں جولیان اسانج کی ملک بدری کے لیے سماعت، برلن خاموش
وکی لیکس کا تہلکہ
جولیان اسانج کی ویب سائٹ وکی لیکس نے سن 2010 میں امریکی افواج کے مبینہ جنگی جرائم اور دیگر متنازعہ اقدامات سے متعلق لاکھوں دستاویزات شائع کی تھیں۔ وکی لیکس نے پھر سن 2011 میں امریکی دفتر خارجہ کے خفیہ مراسلے بھی شائع کیے تھے، جس سے مختلف ممالک اور ان کے رہنماؤں کے بارے میں امریکی حکام کے ذاتی اور حقیقی خیالات منظر عام پر آ گئے تھے۔
صحافیوں کی عالمی تنظیموں کے مطابق جولیان اسنج نے حکومتوں کے غیرقانونی اور غیراخلاقی اقدامات کو منظرعام پر لا کر عوامی مفاد کا تحفظ کیا جس کی انہیں مسلسل سزا دی جا رہی ہے۔
ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ
اسانج کو ایکواڈور کی حکومت نے اگست سن 2012 میں سیاسی پناہ دینے کا اعلان کیا تھا تاکہ امریکا یا اس کے اتحادی ممالک انہیں کسی انتقامی کارروائی کا نشانہ نہ بنا سکیں۔ وہ تقریباً سات برس لندن میں واقع ایکواڈور کے سفارت خانے میں مقیم رہے تھے۔
ایکواڈور کی حکومت نے انہیں جنوری سن 2018 میں شہریت بھی دے دی تھی۔ لیکن پھر ایکواڈور میں حکومت بدلنے کے بعد اپریل سن 2019 میں ان کی شہریت منسوخ کر دی گئی اور انہیں برطانوی پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔
جولیان اسانج کی گرفتاری ایک خطرناک راہ، تبصرہ
اسی سال مئی میں لندن کی ایک عدالت نے انہیں ضمانت کی شرائط کی خلاف ورزی کرنے پر پچاس ہفتوں کی سزا سنائی تھی۔
اس سے قبل جولیان اسانج پر سویڈن میں ریپ کے الزامات بھی لگے، جن سے انہوں نے مسلسل انکار کیا۔ پھر پچھلے سال نومبر میں سویڈن کے حکام نے ناکافی شواہد کی بنیاد پر ان الزامات کی تفتیش بند کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
ش ج، م م (اے ایف پی، روئٹرز)