ایک جج کے انکار کے بعد آسیہ بی بی کی اپیل پر سماعت مؤخر
13 اکتوبر 2016اس موقع پر اسلام آباد میں سخت حفاظتی اقدامات کیے گئے۔ توہین مذہب کے جرم میں سزا پانی والی اس مسیحی خاتون کی جانب سے اسے سنائی گئی سزائے موت کے خلاف دائر کردہ درخواست پر سماعت کا آغاز دارالحکومت اسلام آباد میں ملکی سپریم کورٹ میں آج ہونا تھا۔ پانچ بچوں کی والدہ آسیہ بی بی کو سن 2010ء میں سزائے موت سنائی گئی تھی، تاہم کہا جا رہا ہےکہ ان کی سزا میں کمی کے حوالے سے کسی عدالتی فیصلے کی صورت میں شدید ردعمل سامنے آ سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پاکستان جیسے قدامت پسند معاشرے میں توہین رسالت یا توہین مذہب ایک نہایت حساس معاملہ ہے اور اسی تناظر میں آج سپریم کورٹ کی عمارت کی حفاظت کے لیے قریب سو پولیس اہلکار تعینات کیے گئے۔
خبر رساں اداروں کے مطابق آج کی عدالتی سماعت کے موقع پر کسی ممکنہ ناخوش گوار واقعے کے پیش آنے کے خدشات اس وقت اور زیادہ ہو گئے، جب اس اپیل کی سماعت کے لیے بنائے گئے تین رکنی بینچ میں شامل جج اقبال حمید الرحمان نے مقدمے کی کارروائی میں اپنے شریک ہونے سے معذوری ظاہر کر دی۔
انہوں نے کہا، ’’میں اس عدالتی بینچ میں بھی شامل تھا، جس نے سلمان تاثیر کے قتل کے مقدمے کی سماعت کی تھی اور یہ مقدمہ بھی اسی سے متعلق ہے۔‘‘
پاکستانی صوبے پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو آسیہ بی بی کی حمایت میں بولنے پر انہی کے ایک محافظ نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو رواں برس کے آغاز میں پھانسی دے دی گئی تھی، تاہم اس موقع پر سخت گیر موقف کے حامل ہزاروں افراد نے مظاہرے کیے تھے۔ ان افراد کا مطالبہ تھا کہ آسیہ بی بی کو پھانسی دی جائے۔
آسیہ بی بی کی اپیل کی سماعت کے لیے فی الحال سپریم کورٹ نے کسی نئے بینچ کے قیام کا اعلان نہیں کیا۔
اس سے قبل ایک سینیئر پولیس اہلکار نے بتایا تھا کہ مقدمے کی سماعت کے تناظر میں اسلام آباد میں تین ہزار سکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے۔
آسیہ بی بی کے ایک وکیل سیف الملوک نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’ہم نے اپنی تیاریاں مکمل کر لی ہیں اور ہم پرامید ہیں۔‘‘
یہ بات اہم ہے کہ پاکستان میں توہین مذہب اور توہین رسالت کے قوانین کے حوالے سے دو مختلف آراء پائی جاتی ہیں، جہاں ایک طرف ان قوانین کی سخت مخالفت کی جاتی ہے، تو دوسری جانب انہی قوانین کی حمایت کرنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے۔