ایک مرتا ہوا انسان سترہ انسانوں کو زندگی دے سکتا ہے
26 اگست 2013پاکستان میں ہر سال پچاس ہزار سے زائد افراد اپنے مختلف اعضاء کی ناکامی کی وجہ سے اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ ان مرنے والوں میں آٹھ ہزار افراد دل کی بیماریوں، پندرہ ہزار جگر کے عارضے اور 20 ہزار کے قریب گردوں کی ناکامی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
پاکستان میں گردوں اور ان سے متعلقہ بیماریوں کی شرح انتہائی تیزی سے بڑھ رہی ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ ملک میں تیزی سے پھیلتی ہوئی ذیابیطس کی بیماری ہے۔ اس حوالے سے سندھ انسٹیٹیوٹ برائے امراض گردہ کے سربراہ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے خبر رساں ادارے آئی پی ایس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بین الاقوامی ذیابیطس فیڈریشن کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق سن 2030 میں پاکستان ان ممالک میں دسویں نمبر پر ہوگا جہاں اس بیماری کے شکار لوگوں کی سب سے زیادہ تعداد موجود ہے۔
پاکستان میں اگر گردوں کی بیماریوں کے شکار لوگوں کو مناسب وقت پر کوئی گردہ عطیہ کرنے والا مل جائے تو ان کی جان بچ سکتی ہے۔ وہاں مؤثر قانون سازی موجود ہونے کے باوجود بھی گردے عطیہ کرنے والے نہیں ملتے۔ اس وجہ سے لوگوں کو ڈائلسز کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ سن 1995 سے ڈائلسز کے سہارے جی رہی 36 سالہ صبیحہ محمد صالح کا کہنا ہے کہ گردے تو دور کی بات پاکستان میں لوگ خون عطیہ کرنے سے بھی گھبراتے ہیں۔
پاکستان میں رائج قانون کے مطابق کوئی بھی شخص وصیت کر سکتا ہے کہ مرنے کے بعد اس کے اعضاء عطیہ کردیے جائیں لیکن وہاں گذشتہ تین برسوں میں صرف دو ایسے کیسز سامنے آئے ہیں جن میں مرنے والے کے اعضاء عطیہ کیے گئے ہیں۔ وصیت کے باوجود بھی مرنے والے کے اہل خانہ ایسا کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔
ڈاکٹر ادیب رضوی نے کہا کہ اگر ہم پاکستان میں ان لوگوں کی زندگی بچانا چاہتے ہیں جو محض اپنے کسی ایک عضو کی ناکامی کی وجہ سے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلاء ہیں تو ہمیں اعضاء عطیہ کرنے کے حوالے سے شعور بیدار کرنا ہوگا۔ یہ میڈیا، سول سوسائٹی اور پڑھے لکھے لوگوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ خود آگے بڑھیں اور اس حوالے سے اپنا کردار ادا کریں۔