بالواسطہ مشرق وسطیٰ امن مذاکرات اگلے ہفتے سے
1 مئی 2010واشنگٹن کا دورہ کرنے والے کویتی وزیر خارجہ شیخ محمد الصباح کے ساتھ ملاقات کے موقع پر امریکی وزیر نے کہا کہ عرب ممالک ہفتے کو اس سلسلے میں اپنے تعاون کا اعلان کر دیں گے۔ کویتی وزیر خارجہ شیخ محمد الصباح نے کہا کہ ان کا ملک امریکی مؤقف کی حمایت کرتا ہے اور انہیں امید ہے کہ دیگر عرب ریاستیں بھی مشرق وسطیٰ میں امن مذاکرات کی بحالی کی حمایت کریں گی۔
غزہ کی گزشتہ جنگ کے بعد سے منقطع یہ دوطرفہ مذاکراتی سلسلہ تقریبا تین ماہ قبل اپنی بحالی کے قریب تر پہنچ گیا تھا لیکن پھر امریکی نائب صدر جو بائیڈن کے ایک دورے کے موقع پر اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں مزید یہودی آبادکاری کے نئے منصوبوں کا اعلان کردیا گیا تھا، جس کے بعد صورتحال یکسر بدل گئی تھی۔
عرب ممالک اسرائیلی حکومت کے اس اعلان پر سراپا احتجاج بن گئے تھے جبکہ امریکہ سمیت بیشتر مغربی طاقتوں اور اقوام متحدہ نے بھی اس اسرائیلی منصوبے کی شدید مذمت بھی کی تھی تاہم اسرائیل اپنے فیصلے پر ڈٹا رہا۔
گزشتہ ماہ کے اواخر میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو واشنگٹن میں امریکی صدر باراک اوباما سے ملنے سے قبل کہہ چکے تھے کہ امریکہ کی طرف سے یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے کے فلسطینی مطالبے کی حمایت امن مذاکرات میں ایک برس تک کی تاخیر کا باعث بن سکتی ہے۔
اس حوالے سے جمعہ کو ہلیری کلنٹن نے کہا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ فریقین بتدریج تمام تنازعات پر جامع مذاکرات کی جانب بڑھیں۔ اسرائیلی اور فلسطینی حکام نے امریکی وزیر خارجہ کے اس تازہ بیان پر کوئی فوری تبصرہ نہیں کیا۔
فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان صائب ایرکات کے بقول ہفتہ کو عرب وزرائے خارجہ کے اجلاس کے بعد ہی اس سلسلے میں کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگلے ہفتے ہونے والے تنظیم آزادی فلسطین PLO کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں بھی اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کرنے یا نہ کرنے کے معاملے پر غور کیا جائے گا۔
مشرق وسطیٰ میں جامع امن مذاکرات اگر بحال ہو گئے تو اس بحالی کو ممکن بنانا عالمی سیاست میں اوباما انتظامیہ کی بڑی کامیابی تصور کیا جائے گا۔ خطے کے لئے امریکہ کے خصوصی مندوب جارج مچل کے ذریعے اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین بالواسطہ رابطوں کا سلسلہ پہلے ہی بحال کیا جاچکا ہے۔
امریکہ میں اوباما انتظامیہ مشرق وسطیٰ کے تنازعے کا دو ریاستی حل تلاش کر رہی ہے اور اس ضمن میں بالواسطہ مذاکرات کو بڑی پیش رفت سمجھتی ہے۔
واشنگٹن میں قائم ادارہ برائے سٹریٹیجک اور بین الاقوامی امور سے وابستہ ماہر جان آلٹرمین کے بقول بالواسطہ مذاکرات کی بحالی مثبت سمت میں اہم پیش رفت ضرور ہے مگر اصل امتحان کا سامنا اس کے بعد ہو گا اور وہ یہ کہ آیا اس بالواسطہ بات چیت کے نتیجے میں معاملات اس حد تک آگے بڑھائے جا سکتے ہیں کہ فلسطینی اور اسرائیلی عوام بھی اس امن عمل کی حمایت کریں۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: مقبول ملک