بان کی مون کل ہفتہ کو پاکستان جائیں گے
14 اگست 2010یہ بات جمعے کے روز اسلام آباد میں ایک سرکاری اہلکار نے بتائی۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر جرمن خبر رساں ادارے DPA کو بتایا کہ بان کی مون کل ہفتے کے روز سیلاب زدہ پاکستانی علاقوں کا جو دورہ کریں گے، اس کا مقصد ذاتی طور پر یہ اندازہ لگانا ہے کہ جن سیلابوں کو جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں 2004ء کی تباہ کن سونامی لہروں کی صورت میں آنے والی آفت سے بھی زیادہ شدید قرار دیا جا رہا ہے، وہ اس جنوبی ایشیائی ملک میں کس حد تک تباہی اور بربادی کا باعث بنے ہیں۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے اس اہلکار کے مطابق عالمی ادارے کے سیکریٹری جنرل سیلاب زدہ علاقوں میں متاثرین سے ملنے کے علاوہ صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ملاقاتیں بھی کریں گے۔
بعد ازاں بان کی مون پاکستان میں فوری امدادی کارروائیوں میں مصروف اقوام متحدہ کے مختلف ذیلی اداروں کے اعلیٰ نمائندوں سے مشاورت بھی کریں گے۔
بان کی مون کا پاکستان کا یہ دورہ اس ملک میں سیلابی تباہ کاریوں کے بعد سے وہاں کسی انتہائی اہم غیر ملکی شخصیت کا پہلا دورہ ہو گا۔ یہ عالمی ادارہ پاکستان میں سیلاب کے تقریباﹰ ڈیڑھ کروڑ متاثرین کی ہنگامی بنیادوں پر امداد کے لئے بین الاقومی برادری سے 460 ملین ڈالر مہیا کرنے کی اپیل بھی کر چکا ہے۔
پاکستان میں ملکی تاریخ کے ان شدید ترین سیلابوں کے باعث اندازہ ہے کہ اب تک قریب دو ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ سرکاری ذرائع یہ تعداد تقریباﹰ 1600 بتاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان متاثرین کی تعداد 14 ملین کے قریب ہے، جن کے گھر بار، مال مویشی اور زیادہ تر املاک یا تو زیر آب آ چکی ہیں یا پھر سیلابی لہریں انہیں اپنے ساتھ بہا کر لے گئیں۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق سیلاب سے متاثرہ شہریوں کی اصل تعداد 15 اور 20 ملین کے درمیان بنتی ہے۔
اس کے علاوہ زرعی شعبے کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ عالمی بینک کے صدر رابرٹ زولِک نے جمعے کے روز بالٹک کی جمہوریہء لیٹویا میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ ورلڈ بینک کے بڑے محتاط اندازوں کے مطابق بھی پاکستانی تاریخ کے اس شدید ترین سیلاب کے باعث جو کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں، ان کی وجہ سے ملکی زرعی شعبے کو پہنچنے والے نقصان کی مالیت کم ازکم بھی ایک بلین امریکی ڈالر بنتی ہے۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: امجد علی