باپ وزیراعظم پاکستان، بیٹا وزیر اعلی پنجاب
30 اپریل 2022پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما میاں حمزہ شہباز شریف نے صوبے کے 21ویں وزیر اعلی کا حلف اٹھایا۔وہ کئی دہائیوں تک برسراقتدار رہنے والی شریف فیملی سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف کے بیٹے ہیں۔ لیکن سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اس پیش رفت کے باوجود صوبے کا سیاسی بحران ابھی ختم ہونے کا امکان نہیں ہے۔ احتجاجی رویوں، عدالتی چارہ جوئیوں اور اختلافی بیانوں کے طویل سلسلے کے بعد ہفتے کے روز پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کو ایک ماہ بعد اس کا چیف منسٹر مل گیا ہے۔ عدالتی حکم کے تحت پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف نے ان سے حلف لیا۔
دوسری طرف اسی روز پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے سابق وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کے کئی ہفتے پہلے دئیے گئے استعفے کو غیرقانونی قرار دے کر اسے مسترد کرتے ہوئے انہیں وزیر اعلی پنجاب کے طور پر بحال کرنے کا اعلان کیا۔ اس پیش رفت کے بعد سردار عثمان بزدار نے اپنی قیادت میں اپنی کابینہ کا علامتی اجلاس منعقد کیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 'کابینہ ‘کے اس اجلاس کے لئے دعوت نامے پنجاب کے متعلقہ سرکاری محکمے کی بجائے پی ٹی آئی کے دو سابق وزرا کی طرف سے جاری کئے گئے تھے۔ پنجاب اسمبلی میں ہونے والے اس اجلاس میں نئے وزیر اعلی حمزہ شہباز کے انتخاب کو غیرقانونی قرار دیا گیا۔
سینتالیس سالہ اولڈ راوئین حمزہ شہباز کو موروثی سیاست کے الزامات کے سائے میں وزارت اعلی سنبھالنے والے حمزہ شہباز ایک ایسے وقت میں برسراقتدار آئے ہیں جب صوبہ پنجاب میں عوام کو سنگین مسائل کا سامنا ہے۔
بحران ابھی ٹلا نہیں
پاکستان کے ممتاز تجزیہ نگار امتیاز عالم نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حمزہ شہباز نے ابھی تو پی ٹی آئی کے منحرفین کو ساتھ ملا کر اکثریت حاصل کر لی ہے۔ لیکن ابھی پی ٹی آئی کے 26 منحرفین کے بارے میں 6 جون تک عدالتی فیصلہ آنا باقی ہے۔ اپنے خلاف فیصلہ آنے پر کیا وہ پی ٹی آئی کے مزید ارکان توڑیں گے؟ مزید لوگ نا اہل قرار پائیں گے؟ ایسا لگتا ہے کہ صوبے میں سیاسی استحکام نہیں آ سکے گا۔
حمزہ شہباز کو کن چیلنجز کا سامنا ہو گا؟
روزنامہ پاکستان سے وابستہ سینئیر صحافی چوہدری خادم حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس وقت انتخابات کے قریب آ جانے اور عمران خان کے احتجاجی عزائم کی وجہ سے جو صورتحال درپیش ہے اس میں حمزہ شہباز کے پاس 'ڈیلیور‘ کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔
حمزہ شہباز نے ایک ایسے موقعے پر وزارت اعلی کا قلمدان سنبھالا ہے جب پنجاب میں عوام روز افزوں بڑھتی ہوئی مہنگائی، شدید لوڈ شیڈنگ اور امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے پریشان ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ حمزہ شہباز شریف کو پنجاب میں پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک سے بھی نمٹنا پڑے گا۔ حمزہ شہباز کی پارٹی کے وہ لوگ جو موروثی سیاست کی وجہ سے ان کے وزیراعلی پنجاب بننے کے حامی نہیں تھے، انہیں ان کے تحفظات کو بھی دور کرنا ہوگا۔ حمزہ شہباز کے لئے مختلف پارٹیوں سے لئے گئے وزرا پر مشتمل کابینہ کو ساتھ لے کر چلنا بھی ایک چیلنج ہو گا۔
بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ حمزہ ماضی میں بھی وزیراعلی شہباز شریف کی معاونت کرتے ہوئے مشکل چیلنجز سے نبرد آزما ہوتے رہے ہیں۔ اب مرکز میں بھی ان کے والد کی حکومت ہے۔ ان کی حمایت سے وہ ان مشکلات سے نکل سکتے ہیں۔ چوہدری خادم حسین کہتے ہیں کہ حمزہ شہباز کو چاہیے کہ وہ جلد از جلد بلدیاتی انتخابات کروا کر اپنا بوجھ کم کریں۔
پنجابی بیوروکریسی، پنجابی وزیراعلی کے ساتھ
تجزیہ نگار امتیاز عالم بتاتے ہیں کہ حمزہ شہباز کی خوش قسمتی ہے کہ پنجاب کی بیوروکریسی ان کے حلف اٹھانے سے پہلے ہی ان کے ساتھ مل گئی ہے۔ اس نوکر شاہی نے کئی دن پہلے ہی نگران وزیر اعلی عثمان بزدار کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ حمزہ کے وزیراعلی بنتے ہی جس طرح عثمان بزدار کو بتائے بغیر ان کی سیکورٹی کو واپس بلا لیا گیا۔ اس عمل سے بیوروکریسی کی ''معاملہ فہمی‘‘ اور ''مردم شناسی‘‘ میں کوئی شک باقی نہیں رہنا چاہیے۔
کثیرالجماعتی کابینہ سے کیسے نمٹیں گے؟
امتیاز عالم مزید کہتے ہیں کہ یہ دونوں باپ (وزیراعظم شہباز شریف) اور بیٹے (وزیراعلی حمزہ شہباز) کا ٹیسٹ ہے کہ وہ وفاق اور پنجاب میں مختلف جماعتوں کے وزرا کے ساتھ بنائی جانے والی کابینہ کو کیسے اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ ان کے مطابق ارکان اسمبلی کو اپنے حلقے کے کاموں کا دباؤ ہوتا ہے۔ الیکشن کے سال میں ووٹروں اور ارکان اسمبلی کی توقعات کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتی ہیں دیکھنا یہ ہو گا کہ حمزہ کتنی ملنساری اور ذہانت کے ساتھ ارکان کو اپنے ساتھ رکھ کر حکومت کرتے ہیں۔
روزنامہ پاکستان سے وابستہ سینئر صحافی چوہدری خادم حسین کہتے ہیں شریف فیملی نے عمران خان کے دور اقتدار میں جو دکھ اٹھائے ہیں اس سے دوبارہ دوچار ہونے سے بہت بہتر ہے کہ وہ خاموشی کے ساتھ اپنے اتحادیوں کو برداشت کرتے ہوئے اگلا الیکشن جیتنے کی کوشش کریں۔
عثمان بزدار کا مستقبل کیا ہوگا؟
اس سوال کے جواب میں کہ مستقبل کا مورخ سابق وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کو کیسے یاد کرے گا، امتیاز عالم کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ان کا کوئی نمایاں رول نہیں ہوگا۔ انہیں ایک گمنام شخص یا عمران خان کے ایک تحفے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ ان کے بقول عمران خان انہیں وسیم اکرم پلس سمجھنے پر اصرار کرتے رہے لیکن ان کی وجہ سے عمران خان کی پارٹی کے لوگ وفاق اور صوبے میں پارٹی چھوڑ گئے۔ پی ٹی آئی میں بھی عثمان بزدار کی کوئی خاص مقبولیت نہیں ہے۔
مستقبل کا سیاسی منظر نامہ
امتیاز عالم کہتے ہیں کہ عمران خان نئی بننے والی ان حکومتوں کو نہیں مانیں گے اور اپنے احتجاج کو بڑھاتے جائیں گے۔ دوسری طرف جلدی الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کے لئے ممکن نہیں ہے ۔ابھی مردم شماری، حلقہ بندیوں، ووٹر لسٹوں کی تیاری کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ایسے میں مستقبل کا منظر نامہ کوئی زیادہ خوشگوار دکھائی نہیں دیتا۔ وہ کہتے ہیں، ''عمران خان پارلیمانی اور آئینی روایات کی پاسداری کی پروا نہیں کر رہے، وہ مقدس مقامات کو بھی ڈی چوک بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود عمران خان کا سیاسی بیانیہ بک رہا ہے۔ اگر موجودہ حکومت مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ پر قابو بھی پا لیتی ہے تو پھر بھی اسے عمران خان کے بیانیے کے مقابلے کے لئے ایک موثر بیانیہ سامنے لانے کی ضرورت ہو گی۔ ‘‘