بحیرہ جنوبی چین کی ملکیت، بیجنگ اپنے دعوے پر قائم
13 نومبر 2011اس سلسلے میں چین انڈونیشیا میں آئندہ ہفتے ہونے والی مشرقی ایشیائی ملکوں کی دو اہم سربراہی کانفرنسوں میں نہ تو کسی ملک کو کوئی رعایت دینے پر تیار ہو گا اور نہ ہی کسی قسم کی مصالحت پر آمادہ۔
اس کا سبب یہ ہے کہ بحیرہ جنوبی چین کی علاقائی ملکیت سے متعلق بیجنگ حکومت کو داخلی سطح پر بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ چینی حکومت میں یہ احساس بھی پایا جاتے ہے کہ علاقائی ملکیت سے متعلق اس کے دعووں کو خطے کے دیگر ملکوں کی طرف سے زیادہ سے زیادہ محدود کرنے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔
بحیرہ جنوبی چین کا علاقہ ممکنہ طور پر تیل اور گیس کے ذخائر سے مالا مال ہے اور بیجنگ حکومت اس کے بہت وسیع حصے کو اپنی ملکیت قرار دیتی ہے۔ اس متنازعہ خطے میں کئی ایسے چھوٹے چھوٹے جزیرے بھی شامل ہیں جو غیر آباد ہیں۔ بیجنگ کی طرف سے اس سمندری علاقے میں بورنیو کے جزیرے کے شمالی ساحلی حصے کو بھی چین ہی کی ملکیت قرار دیا جاتا ہے۔
لیکن اس خطے میں ویت نام، فلپائن، تائیوان، ملائیشیا اور برونائی بھی ایسے ممالک ہیں جو بحیرہ جنوبی چین کو جزوی طور پر اپنا ملکیتی علاقہ قرار دیتے ہیں۔ یہ ملک امریکہ اور جاپان کے ساتھ مل کر چین سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اس علاقے پر اپنی حاکمیت سے متعلق تنازعے کو حل کرے اور اس بارے میں پائے جانے والے جمود کا خاتمہ کرے۔ یہ تنازعہ اس سال ایک بار پھر خطے میں نئی کشیدگی کی وجہ بنا تھا اور معاملہ مختلف ملکوں کے بحری دستوں کے آمنے سامنے آ جانے تک بھی پہنچ گیا تھا۔
بیجنگ سے ملنے والی رپورٹوں میں خارجہ پالیسی سے متعلقہ امور کے ماہرین کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ چین کو اچھی طرح احساس ہے اور وہ کافی خود اعتماد بھی ہے کہ اس کی فوجی طاقت بڑھتی جا رہی ہے۔ اس لیے بیجنگ میں ملکی قیادت کے پاس بظاہر ایسی کوئی وجہ نہیں کہ وہ اپنے اب تک کے دعووں سے دستبردار ہو جائے۔
لندن میں خارجہ پالیسی کے چیٹم ہاؤس انسٹیٹیوٹ کے ایشیا پروگرام کے سربراہ کیری براؤن کہتے ہیں کہ چینی قیادت کی سوچ میں چین عسکری اور اقتصادی حوالوں سے اب بہت نمایاں اور کافی مضبوط ہے، لہٰذا وہ بھلا اپنے دعووں سے دستبردار کیوں ہو گا؟ اگر چین کی توانائی کی اور عسکری ضروریات کو دیکھا جائے، ساتھ ہی اس بات کو بھی مد نظر رکھا جائے کہ متنازعہ سمندری علاقے میں کتنے زیادہ قدرتی وسائل پائے جاتے ہیں، تو چین کا اپنے ملکیتی دعووں کو ترک کر دینا بڑا عجیب ہو گا۔
چینی وزیر اعظم وین جیاباؤ آئندہ ہفتے پہلے تو جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کی تنظیم آسیان کی ایک سربراہی کانفرنس میں شرکت کریں گے اور پھر انیس نومبر کو ایک مشرقی ایشیائی سمٹ میں بھی۔ یہ دونوں کانفرنسیں انڈونیشیا کے جزیرے بالی پر منعقد کی جائیں گی۔
مشرقی ایشیائی کانفرنس سن دو ہزار پانچ سے ہر سال منعقد کی جاتی ہے۔ اس میں جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کے علاوہ چین، جاپان، بھارت، آسٹریلیا، جنوبی کوریا اور نیوزی لینڈ کے اعلیٰ نمائندے یا رہنما حصہ لیتے ہیں۔ اس سال انیس نومبر کو ہونے والی اس کانفرنس میں امریکی صدر باراک اوباما کی شرکت بھی متوقع ہے۔
کئی ایشیائی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ آسیان کی سربراہی کانفرنس اور مشرقی ایشیائی سمٹ میں بحیرہ جنوبی چین کی ملکیت سے متعلق تنازعے کا ذکر بہت ممکن ہے لیکن ان میں چین بظاہر اپنے مؤقف میں کسی تبدیلی کا اشارہ نہیں دے گا۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت:ندیم ِگل