برطانیہ والدین سے بچھڑ جانے والے مہاجر بچوں کو پناہ دے گا
28 جنوری 2016خبر رساں ادارے اے ایف کے مطابق اپنے خاندانوں سے بچھڑنے والے مہاجر بچوں کو برطانیہ میں پناہ دینے کے لیے برطانوی حکام اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔
برطانیہ کے وزیر برائے امورِ تارکین وطن جیمز برُوکنشائر کا اپنے ایک بیان میں کہنا تھا، ’’شامی بحران اور مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور دیگر خطوں میں رونما ہونے والے واقعات کے باعث تارکین وطن بچوں کی ایک بڑی تعداد اپنے والدین سے بچھڑ چکی ہے۔‘‘ برُوکنشائر کا مزید کہنا تھا کہ بڑی تعداد میں ایسے لاوارث مہاجر بچے انہی علاقوں میں اپنے دور پار کے رشتہ داروں کے پاس رہ رہے ہیں۔
برُوکنشائر کا کہنا تھا، ’’ہم نے یو این ایچ سی آر سے درخواست کی ہے کہ وہ ایسے بچوں کی شناخت، انتخاب اور برطانیہ منتقلی میں ہماری مدد کریں جنہیں برطانیہ میں پناہ دینے سے ان کا مستقبل بہتر ہو سکتا ہے۔‘‘
ہوم آفس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ وہ فی الحال یہ نہیں بتا سکتے کہ اس منصوبے کے تحت کتنے بچوں کو برطانیہ لایا جائے گا۔
برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے گزشتہ برس ستمبر کے مہینے اعلان کیا تھا کہ 2020ء تک بیس ہزار شامی تارکین وطن کو برطانیہ میں پناہ دی جائے گی۔ اس ضمن میں اب تک ایک ہزار شامی شہریوں کو برطانیہ میں پناہ دی جا چکی ہے۔ ان میں سے نصف تعداد بچوں پر مشتمل ہے۔
تاہم برطانیہ یورپی یونین کی جانب سے تارکین وطن کی رکن ممالک میں تقسیم کے منصوبے میں شامل نہیں ہوا۔ لندن حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ایسے شامی باشندوں کو پناہ نہیں دے گا جو پہلے سے یورپ پہنچ چکے ہیں۔ اس کے برعکس پانچ برسوں کے دوران بیس ہزار ایسے شامی باشندوں کو برطانیہ میں آباد کیا جائے گا جو ابھی تک اپنے علاقوں ہی میں موجود ہیں۔
تاہم برطانوی اخبار ’دی گارڈین‘ کے مطابق سماجی تنظیموں اور سیاست دانوں کے مطالبے کے بعد برطانوی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ یورپ میں موجود لاوارث شامی مہاجر بچوں کو بھی برطانیہ میں پناہ دی جائے گی۔
گزشتہ برس تین سالہ شامی بچے ایلان کرُدی کی ترکی کے ساحل پر مردہ حالت میں لی گئی تصویر منظر عام پر آنے کے بعد سے ڈیوڈ کیمرون پر شامی بچوں کو برطانیہ میں پناہ دینے کے لیے دباؤ کا سامنا تھا۔
برطانوی حکومت نے جمعرات اٹھائیس جنوری کے روز یورپ آنے والے مہاجر بچوں کی مدد کے لیے دس ملین برطانوی پاؤنڈ فراہم کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔