لاوارث مہاجر بچوں کو ترجیح دی جائے، برطانوی پارلیمانی کمیٹی
5 جنوری 2016برطانیہ میں ’بین الاقوامی ترقیاتی کمیٹی‘ کے مطابق یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے لاوارث بچوں کو پناہ دی جانا چاہیے کیونکہ وہ آسانی کے ساتھ استحصال کا شکار بنائے جا سکتے ہیں۔
برطانوی امدادی ادارے DFID کی نگرانی کرنے والی اس پارلیمانی کمیٹی کے مطابق لندن حکومت کی طرف سے بیس ہزار مہاجرین کو پناہ دیے جانے کے منصوبے میں ان بچوں کو اوّلین ترجیح دی جانا چاہیے۔
اس کمیٹی کے چیئرمین اسٹیفن ٹوِیگ نے کہا ہے کہ مہاجرین کے بحران کی وجہ سے جو صورتحال پیدا ہوئی ہے، اس میں مہاجر بچے سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ خطرناک راستوں کے ذریعے یورپ پہنچنے والے ایسے بچے، جن کے ساتھ کوئی نہیں ہے، انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں لگ سکتے ہیں۔
اسٹیفن ٹوِیگ مہاجر بچوں کی سکیورٹی کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ انسانوں کے اسمگلر ان بچوں کو جسم فروشی، جبری مشقت اور منشیات کے غیر قانونی کاروبار میں جھونک سکتے ہیں۔
بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت IOM کے اعدادوشمار کے مطابق سن 2015 کے دوران مجموعی طور پر ایک ملین مہاجرین اور تارکین وطن نے یورپی یونین کا رخ کیا ہے، جن میں نصف تعداد شامی باشندوں کی ہے۔
گزشتہ برس برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا تھا کہ لندن حکومت آئندہ پانچ برسوں کے دوران بیس ہزار شامی مہاجرین کو پناہ دے گی۔ اس نئی تازہ رپورٹ کے بعد برطانوی حکومت کے ترجمان نے کہا ہے کہ حکومت لاوارث بچوں کو برطانیہ میں پناہ دینے کے معاملے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔
لندن حکومت کے مطابق البتہ شام، مشرق وسطیٰ یا یورپی یونین میں موجود ان بچوں کو برطانیہ میں پناہ دینے کے عمل میں اس امر کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ لاوارث بچوں کو کوئی اضافی مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
’بین الاقوامی ترقیاتی کمیٹی‘ نے یہ بھی کہا ہے کہ لندن حکومت کو ایسے مہاجرین کو بھی خصوصی توجہ دی جانا چاہیے، جو ہم جنس پرست یا مختلف جنسی میلانات و رحجانات رکھتے ہیں۔ کمیٹی نے کہا ہے کہ اس کے علاوہ مسیحی مہاجرین کو بھی پناہ دیے جانے کے سلسلے میں ترجیح دی جانا چاہیے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کو مہاجرین کے سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے۔ اس بحران کی ایک بڑی وجہ شامی خانہ جنگی قرار دی جاتی ہے۔ سن 2011ء سے شروع ہونے والے شامی بحران کی وجہ سے اب تک اقوامن متحدہ کے مطابق چار ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد اردن، ترکی اور لبنان میں مہاجر کیمپوں میں رہ رہی ہے۔ یہی مہاجرین اب یورپ کی طرف سے بڑھنے لگے ہیں۔