برطانیہ کا یورپی یونین سے اخراج، کیا کیا تبدیل ہوا ہے؟
1 جنوری 2021برطانیہ نے یورپی یونین سے اخراج کا عمل عوامی ریفرنڈم کے ساڑھے چار برس بعد مکمل کیا۔ پہلے یورپی یونین سے علیحدگی ہوئی اور پھر گیارہ ماہ کے عبوری دور میں تجارت اور کئی دوسری معاملات پر مذاکرت جاری رہے۔ ان تھکا دینے والے مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں ایک ہزار دو سو چھیالیس صفحات پر مشتمل معاہدے کی دستاویز پر یورپی یونین کے رہنماؤں اور برطانوی وزیر اعظم نے دستخط کیے۔
یہ بھی پڑھیے:بریگزٹ: برطانوی وزير اعظم کے والد فرانس کی شہریت کے خواہاں
اس ڈیل کی برطانوی پارلیمنٹ نے بھی توثیق کر دی ہے۔ یورپی پارلیمنٹ بھی جلد ایسا ہی یہ توثیقی عمل مکمل کر دے گی۔ اس معاہدے کا نام تجارت و تعاون معاہدہ ہے۔ اس کا عبوری نفاذ یکم جنوری سے ہو گیا ہے۔ اب تبدیلی کی صورت حال کچھ یوں ہے:
تجارت
فریقین تجارتی سامان پر کوئی راہداری ٹیکسوں کا نفاذ نہیں کریں گے۔ اس ڈیل میں کوئی تیسرا ملک شامل نہیں ہے۔
ماہرین کے مطابق بعض تجارتی معاملات میں موجود رکاوٹوں کو دوطرفہ خط وکتابت یا مذاکرت سے واضح کرنے کی ابھی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ سرحدوں پر سامان کی اضافی چیکنگ بھی کی جایا کرے گی۔
یہ بھی پڑھیے:یورپی برطانوی معاہدہ: صفحات بارہ سو، منظوری صرف ایک دن میں
کاٹھ کباڑ اور کوڑا کرکٹ کے علاوہ خطرناک کیمیکلز کی درآمد و برآمد کے لیے لائسینس درکار ہو گا۔ یورپی یونین نے امپورٹ کیے جانے والے برطانوی سامانِ تجارت کی چیکنگ پہلی جنوری سے شروع کر دی ہے جبکہ برطانیہ یہ چھ ماہ بعد شروع کرے گا۔
برطانوی مالی سیکٹر کی مشکلات
تجارت و تعاون معاہدے کے نفاذ کے بعد برطانوی مالی سیکٹر کی مشکلات میں اضافہ یقینی خیال کیا گیا ہے۔ اب برطانوی شہریوں کو یورپی یونین کے رکن ملکوں میں اپنی کاروباری سرگرمیوں کے لیے اضافی اجازت درکار ہو گی۔ برطانوی کاروباری اداروں کو یورپی یونین کے مسابقتی فیصلوں کا بھی انتظار کرنا پڑے گا۔
اس ایگریمنٹ میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ برطانوی ماہر تعمیرات یا وکلا کسی معاملے میں رائے یا مشورہ دیں گے تو اس کو وقعت دی جائے گی اور ایسے افراد کو ڈگریوں یا تعلیمی اسناد کی منطوری درکار نہیں ہو گی جبکہ یورپی شہریوں کو ایسا کرنے کے لیے برطانوی حکومت سے منظوری لینا ہو گی۔
سفری سہولیات
برطانوی حکومت کے مطابق یورپی یونین کی کسی بھی رکن ریاست کے شہری چھ ماہ تک بغیر ویزے کے قیام کر سکیں گے، اس عرصے میں وہ کوئی ملازمت اختیار نہیں کریں گے خواہ وہ کوئی اجرت وصول بھی نہ کریں۔
ایسے ہی برطانوی شہری یونین کے کسی بھی رکن ملک میں نوے سے ایک سو اسی دن تک قیام کر سکیں گے۔ البتہ لمبے عرصے کے لیے ویزا درکار ہو گا۔ اسی طرح شادی کے لیے بھی ویزا لینا لازم ہو گا۔ پالتو جانوروں کے لیے یورپی اجازت نامہ اب برطانیہ میں مستعمل نہیں ہو گا۔
سکیورٹی
برطانیہ کا یورپی پولیس اور نظامِ انصاف میں تعاون محدود ہو گیا ہے۔ کسی بھی فرد کے بارے میں معلومات کا حصول باضابطہ درخواست پر کیا جائے گا۔ اسی طرح لندن حکومت شینگن انفارمیشن نظام سے باہر ہو گئی ہے۔ قبل ازیں برطانوی حکومت اس سسٹم کا سالانہ بنیاد پر چھ سو ملین مرتبہ استعمال کیا کرتی تھی۔
اسی طرح یورپی وارنٹ گرفتاری کا متبادل بھی سامنے لایا جائے گا۔ ڈی این اے معلومات بدستور فریقین ایک دوسرے کو فراہم کرتے رہیں گے۔
ڈیٹا شیئرنگ
عبوری مدت کے لیے برطانیہ اور یورپی یونین فی الوقت ڈیٹا کے تبادلے کا عمل جاری رکھیں گے۔ یورپی یونین جلد ہی یہ فیصلہ کرے گی کہ ڈیٹا ایکسچینج کے برطانوی معیارات مناسب ہیں یا ان میں کوئی تبدیلی لائی جائے۔
یہ بھی پڑھیے:برطانیہ یورپی یونین سے باہر لیکن جبرالٹر اب شینگن زون میں
مہاجرت
برطانیہ اور یورپی یونین میں شہریوں کی آزادانہ نقل و حمل ختم ہو گئی ہے۔ برطانیہ نقل مکانی کرنے والوں کے لیے لندن حکومت ایک نیا پوائنٹس سسٹم متعارف کرائے گی اور یہ ہنرمند ورکرز یا پروفیشنلز کے حق میں ہو گا۔
یورپی یونین نے برطانوی شہریوں کی ہجرت پر ابھی کوئی فیصلہ کرنا ہے۔ اسی طرح یہ بھی طے نہیں کیا گیا کہ انہیں کام کے اجازت نامے کی ضرورت ہو گی یا نہیں۔
طلبا اور ریسرچرز
برطانیہ یورپی یونین کے اسٹوڈنٹس ایکسچینج بشمول ایراسمس پروگرام کا حصہ نہیں رہا ہے۔ لندن حکومت اس مقصد کے لیے اپنے قواعد و ضوابط مرتب کرے گی اور یہ ورلڈ وائڈ نافذالعمل ہوں گے۔
اس کے باوجود لندن حکومت یورپی یونین کے ریسرچ پروگرام 'ہورائزن‘ میں شامل رہے گی۔
یہ بھی پڑھیے:بریگزٹ معاہدہ، لندن شہر کا کیا ہو گا؟
ماہی گیری
یکم جنوری سے عبوری مدت یعنی جون سن 2026 تک یورپی یونین کا ماہی گیری کے کوٹے کا پچیس فیصد برطانیہ کو حاصل ہو گیا ہے۔ اس عرصے کے بعد سالانہ بنیاد پر حتمی مذاکرات کا آغاز ہو گا۔
ع ح، ا ا (ڈی پی اے)