برطانیہ یورپی یونین سے نکلا تو نقصان قریب ڈیڑھ سو ارب ڈالر
21 مارچ 2016لندن سے پیر اکیس مارچ کے روز موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ برطانوی صنعتی اداروں کی ملکی تنظیم کنفیڈریشن آف برٹش انڈسٹریز (CBI) کی طرف سے جاری کردہ ایک تازہ ملک گیر مطالعے کے نتائج کے مطابق برطانیہ کے یورپی یونین سے ممکنہ اخراج، جسے British Exit یا مختصراﹰ Brexit بھی کہا جا رہا ہے، کی صورت میں ملکی معیشت کو شدید دھچکا پہنچے گا۔ برطانوی اقتصادیات کے لیےیہ جھٹکا اتنا شدید ہو گا کہ اس کی وجہ سے روزگار کے قریب ایک ملین تک مواقع خطرے میں پڑ جائیں گے۔
اس کے علاوہ یہی ممکنہ فیصلہ برطانیہ کی مجموعی قومی پیداوار کو بھی بری طرح متاثر کرے گا۔ سی بی آئی کے مطابق اس مالی نقصان کی مالیت 2020ء تک 100 بلین پاؤنڈ کے برابر پہنچ جائے گی۔ یہ مالیاتی حجم 128 بلین یورو یا 145 بلین امریکی ڈالر کے برابر بنتا ہے۔
کنفیڈریشن آف برٹش انڈسٹریز کے اس سروے سے پتہ چلا ہے کہ اگر برطانیہ نے یورپی یونین میں اپنی رکنیت ختم کرنے کا فیصلہ کیا، جو کہ ممکن ہے، تو اس طرح اسے اگلے پانچ سال سے بھی کم عرصے میں جو مالیاتی نقصان ہو گا، اس کا حجم اس ملک کی مجموعی قومی پیداوار یا GDP کے پانچ فیصد کے برابر رہے گا۔
سی بی آئی کی اس تحقیق کے بارے میں اس تنظیم کی ڈائریکٹر جنرل کیرولین فیئربَیرن نے لندن میں صحافیوں کو بتایا، ’’یہ مفصل تجزیہ کھل کر ظاہر کرتا ہے کہ برطانیہ کا یورپی یونین سے ممکنہ اخراج ہمارے ملک میں معیار زندگی، ملازمتوں اور اقتصادی ترقی کے لیے حقیقی نوعیت کا ایک بڑا دھچکا ہو گا۔ اگر اس ممکنہ انخلا کے اثرات بہت کم بھی رہے تو بھی برطانوی معیشت کو بہت شدید نوعیت کا جھٹکا تو ضرور لگے گا۔‘‘
مطالعے کے نتائج یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ اگر برطانیہ نے یورپی یونین کو خیرباد کہہ دیا تو مسلسل یونین کا حصہ بنے رہنے کے مقابلے میں 2020ء تک اس ملک میں بے روزگاری کی شرح کم از کم بھی دو سے لے کر تین فیصد تک زیادہ ہو جائے گی۔
یورپی یونین کے رکن ملکوں کی موجودہ تعداد 28 ہے، جن میں برطانیہ بھی شامل ہے۔ لیکن اس سال 23 جون کو وہاں ایک ایسا ریفرنڈم کرایا جائے گا، جس میں عوام یہ فیصلہ کریں گے کہ برطانیہ کو آئندہ بھی یونین کا رکن رہنا چاہیے یا اس بلاک کی رکنیت ترک کر دینا چاہیے۔
رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق اب تک رکنیت کی حمایت اور مخالفت کرنے والے شہریوں کی تعداد قریب برابر ہے، جو تقریباﹰ 40 فیصد بنتی ہے۔ 20 فیصد برطانوی رائے دہندگان نے ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا کہ وہ ریفرنڈم میں پوچھے گئے سوال کا جواب ہاں میں دیں گے یا نہ میں۔ اسی لیے امکان ہے کہ برطانیہ کی یونین میں رکنیت کے مستقبل کا فیصلہ بھی یہی 20 فیصد برٹش ووٹر کریں گے۔