’برقعے پر پابندی سے ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے‘، جرمن ماہر
18 اگست 2016جرمن شہر بوخُم کی رُوہر یونیورسٹی کے پروفیسر لُڈگر پرِیز کے خیال میں آج کل جرمنی میں برقعے (مکمل حجاب) پر پابندی پا دوہری شہریت کے خاتمے کے حوالے سے جو بھرپور بحث جاری ہے، وہ جرمن معاشرے میں باہر سے آنے والوں کے انضمام کے اصل مسئلے کو حل نہیں کر سکتی۔
حال ہی میں شائع ہونے والی ایک کتاب ’ترک وطن اور آمد‘ کے مصنف پرِیز نے ڈی ڈبلیو کے گِیرو شلِیس کو بتایا کہ جرمنی میں باہر سے آنے والے افراد اپنے ساتھ نہ صرف اپنی زندگی کے تجربات لاتے ہیں بلکہ اپنا ثقافتی پس منظر بھی تاہم یہ وہ چیزیں ہیں، جن کا مہاجرین کے حوالے سے کی جانے والی بحث میں سرے سے کوئی خیال نہیں رکھا جاتا:’’ہم یہی توقع کرتے ہیں کہ وہ جلد از جلد ہمارے معاشرے میں ضَم ہو جائیں، ہم اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے کہ وہ اپنی زندگی میں کن تجربات سے گزرے ہیں۔‘
حالیہ کچھ عرصے کے دوران جرمنی پہنچنے والے پناہ کے ایک ملین سے زائد متلاشیوں کے حوالے سے لُڈگر پرِیز نے کہا:’’ہمیں صرف اُن کی جرمنی میں جسمانی آمد کو ہی ممکن نہیں بنانا چاہیے بلکہ انہیں یہ احساس بھی دلانا چاہیے کہ وہ اپنی پوری شخصیت اور سماجی ثقافتی پس منظر کے ساتھ جرمنی پہنچ گئے ہیں۔‘‘
لُڈگر پرِیز کے مطابق یہاں پہنچنے والے انسان طرح طرح کے ہولناک حالات سے گزرنے کے بعد صدماتی کیفیت کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ اُن کے ساتھ بات چیت کی جائے اور ایسی نشستوں کا اہتمام کیا جائے، جہاں اُن کے تجربات اور مسائل کو سنا جائے۔
لُڈگر پرِیز نے کہا کہ جب باہر سے آنے والے ان انسانوں کو دل سے خوش آمدید کہا جائے گا، اُنہیں گویا ’اپنے گھر پہنچ جانے‘ کا احساس دلایا جائے گا اور روزگار کی منڈی میں مساوی مواقع فراہم کیے جائیں گے تو پھر اُن میں سے کسی کی جانب سے پُر تشدد کارروائیوں کا خطرہ بھی کم سے کم ہوتا چلا جائے گا۔
برقعے کے حوالے سے جاری بحث کا ذکر کرتے ہوئے پرِیز نے کہا کہ بلاشبہ سیاستدانوں پر آج کل کوئی نہ کوئی قدم اٹھانے کے لیے بہت زیادہ دباؤ ہے لیکن برقعے پر پابندی یا دوہری شہریت کے خاتمے سے مسائل حل نہیں ہوں گے:’’ہمیں عالمگیریت کے دور میں خود کو صرف اقتصادی چیمپیئن سمجھنے کی بجائے اپنے مخصوص تاریخی پس منظر میں اپنی عالمگیر ذمہ داری کو بھی سمجھنا چاہیے اور باہر سے آنے والوں کے جرمن معاشرے میں مکمل انضمام کے لیے وقت، سہولتیں اور مواقع دینے چاہییں۔‘‘